نیو یارک سٹی کی سیاست میں بڑا اپ سیٹ ؛ زہران ممدانی میئر منتخب
ان کی کامیابی کئی تاریخی اعزازات کے ساتھ آئی ہے، جس میں جرات مندانہ انتخابی وعدے، غیر روایتی خارجہ پالیسی کے مؤقف، اور شدید تنقید کے باوجود عوامی حمایت شامل ہیں۔

نیویارک سٹی اور امریکی سیاست کے لیے ایک تاریخی موڑ پر، زہران ممدانی نیویارک سٹی کے 111ویں میئر منتخب ہو گئے ہیں۔
انہوں نے اپنے مضبوط حریفوں کو شکست دے کر شہر کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی سمت کا عندیہ دیا ہے۔
ان کی کامیابی کئی تاریخی اعزازات کے ساتھ آئی ہے، جس میں جرات مندانہ انتخابی وعدے، غیر روایتی خارجہ پالیسی کے مؤقف، اور شدید تنقید کے باوجود عوامی حمایت شامل ہیں۔
انتخابی نتیجہ اور تاریخی اہمیت:
34 سالہ ممدانی نے 4 نومبر 2025 کو ہونے والے میئر کے انتخابات میں نمایاں برتری حاصل کی۔ ڈیموکریٹک نامزدگی جیتنے کے بعد انہوں نے جنرل الیکشن میں سابق گورنر اینڈریو کومو (آزاد امیدوار) اور ریپبلکن امیدوار کرٹس سلیوا کو شکست دی۔
ان کی جیت کئی حوالوں سے تاریخی ہے:
- وہ نیویارک سٹی کے پہلے مسلمان میئر بن گئے۔
- وہ سو سال سے زائد عرصے میں سب سے کم عمر میئر ہیں۔
- وہ پہلے بھارتی نژاد / جنوبی ایشیائی نژاد شخص ہیں جنہوں نے یہ عہدہ سنبھالا۔
ووٹنگ میں غیر معمولی جوش دیکھا گیا — رپورٹوں کے مطابق دو ملین سے زیادہ نیویارک باشندوں نے ووٹ ڈالے، جو کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ شرح ہے۔
کامیابی کے بعد پہلا خطاب
زہران ممدانی میئر منتخب ہونے کے بعد حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے مہاجر پس منظر اور شہر کے لیے اپنے وژن پر زور دیا۔ انہوں نے کہا:
“نیویارک ایک ایسا شہر رہے گا جو تارکینِ وطن کا ہے، تارکینِ وطن نے اسے بنایا، وہی اس کی طاقت ہیں، اور آج رات سے، ایک تارکِ وطن ہی اس کی قیادت کرے گا۔”
انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“ڈونلڈ ٹرمپ، مجھے پتا ہے تم دیکھ رہے ہو، میرے پاس تمہارے لیے چار الفاظ ہیں: (ٹی وی کی ) آواز اونچی کر دو!”
ان کا لہجہ پُراعتماد اور تبدیلی کا پیغام لیے ہوئے تھا۔ ممدانی نے کہا، “مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہے” — اور وعدہ کیا کہ وہ شہر کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔
Zohran Mamdani:
I am young despite my best efforts to grow older.
I am Muslim.
I am a democratic socialist.
And most damning of all, I refuse to apologize for any of this. pic.twitter.com/87rkxsCEM7
— Clash Report (@clashreport) November 5, 2025
انتخابی منشور اور ترجیحات
ممدانی نے ترقی پسند اور ڈیموکریٹک سوشلسٹ ایجنڈے پر مہم چلائی، جس کا مرکزی نکتہ رہائش اور عوامی سہولیات کی فراہمی تھی۔ ان کے نمایاں وعدوں میں شامل تھے:
- شہر کی بسوں کو مفت یا کم کرایہ پر فراہم کرنا اور پبلک ٹرانزٹ کو بہتر بنانا۔
- کرایہ مستحکم گھروں کا کرایہ منجمد کرنا اور 200,000 مستقل طور پر قابلِ استطاعت گھروں کی تعمیر۔
- 2030 تک کم از کم اجرت 30 ڈالر فی گھنٹہ تک بڑھانا۔
- اشیائے خورد و نوش کے اخراجات کم کرنے کے لیے شہر کی ملکیت میں گروسری اسٹورز قائم کرنا اور ان منصوبوں کی مالی معاونت کے لیے بڑی کمپنیوں اور امیر شہریوں پر ٹیکس بڑھانا۔
میئرمنتخب ہونے کے بعد انہوں نے خطاب میں کہا کہ میں نوجوان ہوں، مسلمان ہوں اور ڈیموکریٹ سوشلسٹ ہوں اور مجھے ان میں سے کسی شناخت پر شرمندگی نہیں ہے۔
فلسطین سے اظہارِ یکجہتی اور خارجہ پالیسی کے مؤقف
ممدانی نے اسرائیل-غزہ تنازع پر اپنے واضح مؤقف اور فلسطینی عوام کی حمایت کے باعث بین الاقوامی توجہ حاصل کی۔
- انہوں نے اسرائیل کے غزہ میں اقدامات کو “نسل کشی” قرار دیا اور کہا کہ اگر وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نیویارک آئیں تو شہر کو بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے جاری کردہ وارنٹ کے مطابق گرفتاری کرنی چاہیے۔
- انہوں نے اعلان کیا کہ بطور میئر وہ پولیس کو حکم دیں گے کہ اگر نیتن یاہو نیویارک آئیں تو انہیں گرفتار کیا جائے۔
ان بیانات نے نیویارک کی متنوع یہودی اور عرب آبادی میں شدید بحث چھیڑ دی۔ کچھ حلقوں نے ان کے مؤقف کو یہود مخالف قرار دیا، مگر ممدانی نے ان الزامات کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر قسم کی نفرت اور تعصب کے خلاف کھڑے ہیں۔
ٹرمپ، ایلون مسک اور دیگر کی مخالفت
ممدانی کی مقبولیت کے ساتھ ہی کئی بااثر شخصیات نے ان پر تنقید کی۔
- سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں “100 فیصد کمیونسٹ پاگل” قرار دیا، وفاقی فنڈز روکنے کی دھمکی دی، اور اینڈریو کومو کی حمایت کا اعلان کیا۔
- ٹیکنالوجی کے ارب پتی ایلون مسک نے بھی کومو کی حمایت کی، ممدانی کو “دلکش فریب کار” کہا جو شہری معیارِ زندگی کو بگاڑ دے گا، اور ان کے نام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: “ممڈومی یا جو بھی اس کا نام ہے!”
یہ ردعمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مالیاتی، ٹیکنالوجی اور وفاقی سطح کے طاقتور حلقے ان کے ترقی پسند ایجنڈے سے خائف ہیں۔
آئندہ چیلنجز اور ترجیحات
ممدانی 1 جنوری 2026 کو موجودہ میئر ایرک ایڈمز سے عہدہ سنبھالیں گے۔ انہیں فوری طور پر درج ذیل بڑے چیلنجز درپیش ہوں گے:
- مہنگائی اور رہائش کے بحران کے باوجود اپنے وعدے پورے کرنا۔
- نیویارک کے پانچوں بورو میں مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا۔
- وفاقی و ریاستی فنڈنگ، کاروباری تعلقات، اور اپنی خارجہ پالیسی کے وعدوں (مثلاً نیتن یاہو کی گرفتاری) کے اثرات سے نمٹنا۔
- کاروباری برادری اور قدامت پسند ووٹرز کے شکوک دور کرنا۔
نتیجہ
زہران ممدانی میئر منتخب ہونے سے نیویارک کی سیاست میں ایک زلزلہ انگیز تبدیلی کی علامت ہے۔ وہ نئی نسل، تارکینِ وطن کی قیادت، اور ترقی پسند سوچ کے نمائندہ بن کر ابھرے ہیں۔
تاہم، ان کی غیر روایتی خارجہ پالیسی اور بائیں بازو کے ایجنڈے نے طاقتور اداروں کی سخت مزاحمت کو بھی جنم دیا ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ انتخابی جوش کو عملی حکمرانی میں کیسے ڈھالتے ہیں — اور آیا ان کا نیویارک واقعی ایک “نئے باب” میں داخل ہوتا ہے یا نہیں۔



