پاکستانسیاست

امریکہ نہیں، عمران خان رہائی کیلئے کس طرف دیکھ رہے ہیں؟

ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے سے قبل اور بعد سے یہ گفتگو کہ کیا ٹرمپ عمران خان کی رہائی میں‌کردار ادا کریں گے؟ پاکستانی میڈیا کی زینت بنی ہے۔ اس حوالے سے عمران خان نے آج صحافیوں اور وکلاء سے گفتگو میں اپنا مؤقف پیش کیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میری رہائی کا معاملہ امریکہ سے نہیں بلکہ پاکستان میں ہی مکمل ہوگا۔ اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 47واں امریکی صدارتی انتخاب جیتنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پاکستان کے لیے خوش آئیند ہے۔ مجھے امید ہے کہ صدر ٹرمپ کم از کم نیوٹرل ہوں گے اور جو بائیڈن کی طرح نہیں ہوں گے جنہوں نے باجوہ کی طرف حسین حقانی کو استعمال کر کے جو میرے خلاف لابی کی گئی اس پر یقین کیا۔ میری رہائی کا معاملہ امریکہ سے نہیں بلکہ پاکستان میں ہی مکمل ہوگا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں جمہوریت برائے نام رہ گئی ہے ۔ عدلیہ ایک جمہوری ملک میں آزادی کی ضمانت ہوتی ہے جو اب نہیں ہے۔ ملک میں صرف انتخابات سے جمہوریت نہیں آتی، حقیقی جمہوریت کے لیے صاف شفاف انتخابات، آزاد عدلیہ، قانون کی بالادستی اور احتساب کا ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ انتخابات کا ڈھونگ تو ڈکٹیٹر بھی رچاتے ہیں۔ ملک کے میڈیا پر اس وقت مکمل سنسر شپ ہے۔ میں نے اخبار دیکھے ہیں ان میں میرا کوئی بیان نہیں چھپتا۔
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت نے آئین میں ترمیم کرکے سپریم کورٹ پر بھی قبضہ کر لیا ہے- یہ جو مرضی اب ناانصافیاں اور ظلم کریں اب ان سے کوئی نہیں پوچھے گا۔ تحریک انصاف جو ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے اس کو ہرانے کے لیے قاضی فائز عیسی اور چیف الیکشن کمشنر نے ان کے ساتھ مل کر مینڈیٹ چوری میں ان کی مدد کی ۔ انہوں نے جو پاکستان کی عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا ہے اس کو بچانے کے لیے انہوں نے یہ ساری قانون سازی اس غیر آئینی پارلیمنٹ ، غیر آئینی صدر، غیر آئینی وزیراعظم اور اس فارم 47 کی پیداوار نظام کو استعمال کر کے آئینی ترامیم کروائی ہے۔ اس قانون سازی کا مقصد صرف پاکستان کی عوام کے حقوق کو سلب کرنا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع فوج کا اندرونی معاملہ تب ہوتا اگر آرمی چیف نیوٹرل ہوتا موجودہ آرمی چیف اس ناجائز حکومت کو تحفظ فراہم کررہا ہے۔ حکومت نے مینڈیٹ پر مارے گئے ڈاکے کو تحفظ دینے کے لیے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی ہے۔ اس پر پارلیمنٹ میں قانونی بحث ہونی چاہیے تھی۔ یہ انتہائی اہم معاملہ تھا اور اس پر کوئی قانونی بحث کیے بغیر قانونی سازی کر دی گئی۔
اپنی پارٹی کو پیغام میں‌انہوں‌نے کہا کہ میں اپنی ساری پارٹی بالخصوص قیادت کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ احتجاجی تحریک کی تیاری کریں ۔احتجاج کی قیادت تحریک انصاف کی جوائنٹ لیڈرشپ کرے گی ۔ جو ٹکٹ ہولڈر یا عہدیدار احتجاج میں شرکت نہیں کرے گا اس کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ہم اس کو اگلے الیکشن میں ٹکٹ دیں گے۔

مزید پڑھیں:‌ٹرمپ کی جیت احسن اقبال کے گلے پڑ گئی

میرا اپنی قوم کو یہ پیغام ہے کہ اپنے حقوق اور آزادی کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔ آپ سب کو حقیقی آزادی اور آزاد عدلیہ کے لئے کھڑا ہونا پڑے گا ۔ ڈنڈے کے زور پر یہ حکومت نہیں چلائی جا سکتی ۔ میں پچھلے سولہ ماہ سے جیل میں ناحق قید ہوں۔ اگر ہم آج ان کے سامنے نہیں کھڑے ہوں گے تو پاکستان میں جمہوریت کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ غلامی سے موت بہتر ہے ۔ یہ مجھے ملٹری کورٹس میں لے جانا چاہتے ہیں تو لے جائیں میں اس کے لیے بھی تیار ہوں لیکن ان کی غلامی قبول نہیں کروں گا۔ میری دو بہنوں کو بھی جیل میں ڈالا گیا اور ایک بہن کا بیٹا ڈیڑھ سال سے ملٹری جیل میں ہے ۔ میں خود ہر قربانی کے لیے تیار ہوں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں‌اپنی دو غلطیاں تسلیم کرتا ہوں کہ جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع دینا میری سب سے بڑی غلطی تھی اور کمزور اتحادی حکومت لینے کی بجائے مجھے دوبارہ انتخابات کروانے چاہیئے تھے۔
انہوں نے واضح کیا کہ میں ملک سے کسی صورت نہیں بھاگوں گا ۔ میرا نام مستقل طور پر ای سی ایل پر ڈال دیں میں نے باہر نہیں جانا۔ پہلے نواز شریف باہر گیا اب اس کی بیٹی بھی باہر چلی گئی بیرون ملک علاج انتہائی مہنگا ہے اور ان کا سارا ٹبر باہر بیٹھا ہوا ہے ۔ ان کی جائیدادیں اور ان کے پیسے ملک سے باہر ہیں۔ اگر میں نے نواز شریف اور زرداری کی طرح چوری کی ہوتی تو ڈیل کر کے ملک سے بھاگ گیا ہوتا-

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button