بلاگ

آئی ایم ایف کے شکنجے سے جان چھڑانا مشکل کیوں؟

آئی ۔ایم۔ایف کا نام سنتے ہی آپکے دماغ میں قرضے ، قیمتوں میں اضافہ ، کڑی شرائط یہ سب آنے لگتا ہے ۔لیکن آئی۔ایم۔ایف کی یہی تعریف کافی نہیں ۔

آئی ۔ایم۔ایف (IMF)  کا نام سنتے ہی آپکے دماغ میں قرضے ، قیمتوں میں اضافہ ، کڑی شرائط یہ سب آنے لگتا ہے ۔لیکن آئی۔ایم۔ایف کی یہی تعریف کافی نہیں ۔

جہاں مجھ سمیت ہر عام شہری کی سوچ ختم ہوتی ہے اس سے کہیں آگے یہ ادارہ کسی ملک کے معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے۔

یہ ادارہ صرف ہمارے مالیاتی امور نہیں دیکھتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک کی سفارتکاری، سیاست ،ثقافت ، بیوروکریسی وغیرہ سب پر اس پر گہرا اثر ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ دنیا کی اصل حکمرانی آئی۔ایم۔ایف کے پاس ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔

 

آئی ایم ایف (IMF) کا قیام اور پس پردہ مقاصد:

جنگ عظیم دوم کا اختتام جب جاپان کے دو شہروں پر بم گرا کر ہوا تو اس وقت دنیا کی سپر پاورز کے ذہن پر ایک سوال چھوڑ گیا اور وہ یہ کے آنے والے وقت میں جب دنیا کے غریب ممالک نے بھی ایٹم بم بنا لیا تو ان پر کس طرح حکمرانی کریں گے؟

اس وقت دنیا دو جنگوں میں کثیر سرمایہ لگا چکی تھی اور ہر طرف معاشی بحران تھا۔۔ ایسے میں ان سپر پاورز نے ایک شاندار پتا کھیلا۔ ایک ایسے مالیاتی ادارے کے قیام کا فیصلہ ہوا جو تمام ممالک کے مالیاتی امور پر نظر رکھے۔

1945 میں جب اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت اس کے ممبر ممالک کی تعداد 24 تھی جو کہ اب 189 تک پہنچ چکی ہے۔

آئی ۔ایم۔ایف کا جبڑا اتنا مضبوط ہے کہ آج تک 70 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ، جو ملک ایک بار اس جبڑے میں آیا آج تک نکل نہیں سکا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ یہ مالیاتی ادارہ ملکوں پر ٹڈی دل کی طرح حملہ کرتا ہے اور چند ہی دنوں میں ان ملکوں کی معیشت، اقتصادیات، ثقافت ہر چیز پر قابض ہو جاتاہے ۔

مزید پڑھیں: ہمارے ترقیاتی منصوبے کم عمر کیوں‌ہوتے ہیں؟

 

آئی ایم ایف کا مافیا والا روپ:

آئی ۔ایم ۔ایف کی ایک عادت ہے کہ اسے ناں سننے کی عادت نہیں ہے۔ اس لیے اگراس مالیاتی ادارے کا حکم کو بجا لاتے ہیں تو آپ پر خزانے کے منہ کھول دیے جاتے ہیں اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو اگر آپ عوام میں مقبولیت کی اعلیٰ حد کو چھو رہے ہوں تو تھوڑے ہی عرصے میں آپ عدم مقبولیت کے کنواں میں گر جائیں گے۔

یہ ادارے کیسے ایک مقبول لیڈر کو عوام کی نظروں سے گرا تے ہیں اس کا اندازہ آپ اس طرح لگائیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آئی تو اس نےآئی ۔ایم۔ایف کے پاس نہ جانے کا اعلان کیا اور معیشت میں تبدیلی لانے کیلیئے اقدامات کا فیصلہ کیا تو یہ بات آئی ۔ایم۔ایف کو پسند نہ آئی۔

یوں آئی ۔ایم ۔ایف نے اپنا پتہ کھیلا اور پاکستان کو گھیرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب جب پاکستان آئی ۔ایم۔ایف کے پاس گیا تو اس نے گیس،پیٹرول سمیت ضروریات زندگی کی تمام تر چیزوں کے ریٹ بڑھانے کا زور دیا۔۔یوں اس نے نہ صرف اس ناں کی سزا دی اور تحریک انصاف کی مقبولیت کو دھچکا دیا بلکہ ساتھ ہی اسد عمر کا استعفیٰ بھی لیا گیا جو اس وقت ڈٹے کھڑے تھے ۔جب اسد عمر صاحب سے ان کے استعفیٰ کے بارے پوچھا جاتا ہے تو وہ مسکرا دیتے ہیں لیکن ان کی مسکراہٹ بہت دکھی اور معنی خیز ہوتی ہے۔

آئی ایم ایف پر اجارہ داری:

آئی ۔ایم ۔ایف کے تمام ممبر ممالک ایک کوٹے کے حساب سے فنڈنگ کرتے ہیں ۔ آپ اندازہ کریں کے 189 ممالک میں سے صرف دس ممالک جن میں امریکہ ،جرمنی ، روس وغیرہ شامل ہیں اس کے کل فنڈ کا 56 فیصد فراہم کرتے ہیں ۔

اب اگر یہ ممالک کسی بات پر اپنا پیسہ آئی۔ایم۔ایف سے نکال لے اور آئی ۔ایم ۔ایف پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک سے قرض کی رقم واپس مانگ لے۔ تو یہ ممالک رقم واپس کرتے ہی دیوالیہ ہو جائیں۔ اس سے آپ با خوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیسے یہ ترقی یافتہ ممالک ان ترقی پذیر ممالک کو بلیک میل کر سکتے ہیں۔

امریکہ آئی ۔ایم۔ایف کو سب سے زیادہ رقم مہیا کرتا ہے یوں اکثر جب پاکستان قرض حاصل کرنے جاتا ہے تو اسے امریکہ کو بھی راضی کرنا پڑتا ہے۔ ایک امریکی معیشت دان سے سوال کیا گیا کہ قرضوں کی واپسی کی کیا صورت اپنائی جائے۔

امریکی معیشت دان نے کہا کہ آپکو ان قرضوں کی واپسی کیلیے اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگنی چاہیے کیونکہ اب تو ان مالیاتی اداروں کا علاج صرف اللہ ہی کے پاس اس علاج کو قیامت کہا جاتا ہے۔ یوں وہ خواب جو سپر پاورز نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر دیکھا تھا وہ پورا ہو گیا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button