پاکستان

سانحہ اوجڑی کیمپ ، جب اسلام آباد اور راولپنڈی میں قیام صغریٰ برپا ہوئی

دیکھنے والوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہورہاہے۔ راکٹ کے فائر ہونے اور زوارار دھماکے کے آواز سن کر لگتا تھا جیسے دشمن ملک بھارت نے حملہ کر دیا ہو۔

دس اپریل 1988 کا دن جڑواں شہری کے باسیوں کیلئے قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا۔ 1988 میں ہفتہ وار چھٹی اتوار کی بجائے جعہ کو ہوا کرتی تھی اس لئے دفاتراور تعلیمی ادارے مکمل طور پر کھلے تھے۔

سانحہ اوجڑی کیمپ؛ جب جڑواں شہروں پر انڈین حملے کا گمان گزرا:

صبح 9 بجکر تقریباً 50 منٹ پر اچانک سے زواردار دھماکا ہوا جس کے آسمان پر راکٹ اڑتے دکھائی دیئے۔

دیکھنے والوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہورہاہے۔ راکٹ کے فائر ہونے اور زوارار دھماکے کے آواز سن کر لگتا تھا جیسے دشمن ملک بھارت نے حملہ کر دیا ہو۔

یہ میزائل اور دھماکے کی آواز اوجڑی کیمپ میں اسلحہ کی ڈپوسے آرہی تھی۔

یہ افغان جہاد کے دن تھے اور پاکستان کے پاس امریکی ساختہ اسلحہ اوجڑی کیمپ میں موجود تھا۔ اس میں اچانک آگ بڑھ اٹھی اور اس کے بعد چند ہی منٹوں میں شہر کا حلیہ بگڑ گیا۔

میزائل اور راکٹ اڑ کر جہاں جا گر لگتے وہاں تباہی کی داستانیں چھوڑ جاتے۔ معاملہ ٹھنڈا ہوا تو درجنوں افراد موت کے منہ میں جا چکے تھے جب کہ سیکنڑوں زخمی تھے۔

سرکاری اعداد و شماد کے مطابق سانحہ اوجڑی کیمپ میں 103 افراد شہید ہوئے جبکہ 1300 کے قریب شہری زخمی بھی ہوئے۔ تاہم غیر سرکاری ذرائع شہداء کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔

 

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی عمران خان کو ڈرون حملے سے بے خبر کیوں رکھ رہی؟

اس اسلحہ کے ڈپو میں امریکی ساختہ سٹینگر میزائل تھے جنہیں روس کوتگنی کا ناچ نچوانے کیلئے لانچ کیا گیا تھا لیکن انہوں نے پاکستان کا بھی بہت نقصان کر دیا تھا۔

جس وقت یہ قیامتِ صغری برپا تھی اس میں میزائل جا کر سابق وزیر شاہد خاقان عباسی کے والد محمد خاقان عباسی کی گاڑی کو بھی لگے جس میں وہ جاں بحق ہو گئے جب کہ ان کے بیٹے زاہد عباسی چودہ سال قومہ میں رہنے کے بعد جاں بحق ہوئے۔

یہ ایک قیامت خیز دن تھا اور واقعہ کے بعد کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، مذمتیں جاری ہوئیں لیکن آج 36 سال گزرنے کے باوجود بھی اس واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین نہ ہو سکا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button