اہم خبریںپاکستانسیاست

قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت؛ پی ٹی آئی تنقید کا نشانہ

حکومت نواز شریف اور محسن نقوی کی عدم شرکت کے سوال کے بے تکے جواب دینے میں مصروف

قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز منعقد ہوا جس میں سیاسی و عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس میں شدت پسندی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں حزب اختلاف کے بعض اراکین کی اجلاس میں عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔

پی ٹی آئی سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا لیکن سب سے بڑی پارٹی ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی زیادہ تنقید کی زد میں رہی۔

پی ٹی آئی کو سیاست کو ملک پر مقدم رکھنے کا الزام بھی دیا گیا اور ایک سینئر صحافی نے تو اپنے پروگرام میں پی ٹی آئی ترجمان کے اس مطالبے کے عمران خان سے اجلاس سے قبل ملاقات کو سکول کے بچوں والا رویہ قرار دے دیا۔

جہاں میڈیا کا سارا زور عمران خان اور پی ٹی آئی پر تھا وہیں یہ اٹھنے والے سوالات کے میاں نواز شریف کمیٹی اجلاس میں کیوں نہ آئے اور وزیر داخلہ نے اس اجلاس کو اہم کیوں نہ سمجھا کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔

کیا عمران خان سے پارٹی کی ملاقات انوکھا مطالبہ تھا؟

پی ٹی آئی کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کیلئے عمران خان کی پیرول پر رہائی اور ان سے ملاقات کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔

پیرول پر رہائی بھی اتنے قومی سلامتی کے معاملے پر عقل سے بعید بات نہ تھی لیکن چلیں حکومت کی ضد ہی سہی تو عمران خان سے ملاقات تو کوئی عقل سے بعید بات نہ تھی۔

اس سے قبل گزشتہ سال ایک موقع پر پی ٹی آئی کا احتجاج مؤخر کرانے کیلئے صبح صبح جیل کھول دی گئی اور اعظم سواتی کے ذریعے عمران خان تک پیغام بھیج دیا گیا۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ پارٹی کی عمران خان سے ملاقات کرا دی جاتی اور معاملہ وہیں سدھر جاتا۔ یقیناً پارٹی عمران خان کو قائل کر لیتی اور اجلاس میں شرکت بھی ہو جاتی ۔

اگرچہ اس سے قبل پارٹی کے کچھ رہنماؤں کے ایسے بیانات سامنے آئے تھے جو اشارہ کرتے تھے کہ پی ٹی آئی شرکت نہیں کرے گی۔ لیکن عمران خان کا فیصلہ بہر حال پارٹی کو ماننا پڑتا۔

مزید پڑھیں: جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد دہشگردوں کی بجائے حکومت کا نشانہ پی ٹی آئی

نواز شریف کا قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت کا بے تکا حکومتی دفاع :

جہاں حکومت پی ٹی آئی پر تنقید کرتی رہی وہیں حکومت اس بات کا بے تکا دفاع کرتی نظر آئی کے نواز شریف اجلاس میں کیوں شریک نہ ہوئے۔

ایک موقع پر منصور علی خان نے جب ن لیگ کے رانا احسان افضل سے سوال کیا تو انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم نواز کی شرکت کو پارٹی کی حاضری قرار دے دیا۔

اگر مریم نواز کی شرکت پارٹی کی حاضری ظاہر کرتی ہے تو اجلاس میں علی امین گنڈا پور شریک تھے تو یوں پی ٹی آئی کی حاضری بھی ہوگئی۔

وہیں منصور علی خان نے سوال اٹھایا کہ لوک ورثہ کے کچھ معاملات تین بارکے وزیر اعظم کے سپرد کر دیئے گئے ہیں لیکن اتنے اہم معاملےپر انہیں شرکت کیلئے نہیں مدعو کیا گیا۔

وہ پارٹی جو نواز شریف کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں لیتی، اس نے بڑے آرام سے قومی سلامتی کمیٹی سے اپنے ہی قائد کو سائیڈ لائن کر دیا اور اب اسکا دفاع بھی کر رہی ہے۔

وہیں حکومت وزیر داخلہ محسن نقوی کی عدم شرکت کو بھی صحیح دفاع نہیں کر پارہی ہے۔ وزیر داخلہ کی مصروفیات کیا ملکی سلامتی سے آگے ہیں؟ اگر نہیں تو اجلاس کا پتا ہونے کے باوجود وہ اپنی مصروفیات ترک کر کے ملک واپس کیوں نہ آئے؟

یوں لگتا ہے کہ اس اہم معاملے کو بھی انا کا معاملہ بنا لیا گیا اور ملکی سلامتی کے معاملے پر بھی سیاسی قیادت ایک نہ ہو سکی۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button