پاکستانجرم و سزا

یہ معاملہ زینب کے والد کا مائیک بند کرنے سے شروع ہوا

جنوری 2018 کی بات ہے، قصور سے زینب امین نامی چھوٹی بچی غائب ہوتی ہے اور چند دن بعد اس کی کچرے سے لاش ملتی ہے۔ بچی کا ڈی این اے ہوا تو زیادتی ثابت ہوئی۔ مجرم گرفتار ہوا اور اسے سزا بھی ہوئی۔
لیکن ایک افسوسناک واقعہ اس دوران بھی پیش آیا۔ آج کے وزیر اعظم اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور دیگر ن لیگی رہنماؤں نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ اس دوران زینب کے والد کچھ کہنا چاہتے تھے جب شہباز شریف نے انکا مائیک بند کر دیا۔ اس ویڈیو کو آج بھی سرچ کر کے دیکھا جاسکتا ہے۔
ننھی زینب کے والد کے ساتھ ایسا کرنے سے ایسا لگا جیسے ان کے توسط سے زینب کے جذبات کی ترجمانی کے ذریعے کو بند کر دیا گیا ہو۔
ایسا ہی واقعہ گزشتہ روز دیکھنے کو مل جب مبینہ طور پر پنجاب کالج کی ایک بچی سے مبینہ زیادتی کا معاملہ سامنے آیا۔
حکومت اور ان سے منسلک صحافیوں نے تو دن بھر اس ریسرچ میں سر کھپا دیا کہ معاملہ ہوا ہی نہیں۔ لیکن کالج کی لڑکیاں اپنی ہم عمر لڑکی پر گزرنے والے اس واقعہ کو سر عام بیان کرتی رہیں۔
نوجوان بھی اس معاملے احتجاج کو باہر آئے لیکن انہیں مار پیٹا گیا، گرفتار کیا گیا، کالج سے نکالنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن نوجوانوں نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔
موقع پر جانے والے وزیر تعلیم راجہ سکندر حیات بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ کچھ ہوا ہے۔ لیکن حکومت ہر ممکن کوشش میں نظر آتی ہے کہ معاملے کو دبایا جائے۔

مزید پڑھیں: لاہور میں‌ خواتین طالبات کے ساتھ تین افسوسناک واقعات

صحافی وحید مراد اس معاملےپر لکھتے ہیں کہ پولیس پہلے دن سے کہہ رہی ہے کچھ ہوا ہی نہیں۔ طلبہ ماننے کو تیار نہیں اور گزشتہ روز اُنہوں نے امن و امان کی صورتحال پیدا کر دی۔ پیر کو پہلے ایک پولیس افسر نے پریس کانفرنس کی اور واقعے کی بنیاد سے ہی انکار کیا۔ اس کے بعد طلبہ کو قابو کرنے کی کوشش میں صوبائی وزیرِ تعلیم نے کہا کہ کچھ تو ہوا ہے۔ شام کو پنجاب کی مشہو خاتون پولیس افسر نے اینکر بن کر مبینہ متاثرہ لڑکی کے مبینہ والد اور چچا کا انٹرویو کر کے چلا دیا جن کا کہنا تھا کہ طالبہ گھر پر سیڑھیوں سے گری، کمر کی ہڈی میں چوٹ آئی اور سات روز سے زیرِعلاج ہے۔ اور پھر رات کو وزیراعلٰی نے معاملے کی تحقیقات کے لیے اعلٰی سطح کی کمیٹی تشکیل دے دی۔ سوشل میڈیا کے دور میں ایسی حماقتیں معاشرے میں قیاس آرائیوں کا طوفان اُٹھا دیتی ہیں۔
وحید مرا کا مزید کہنا تھا کہ صرف ایک سوال: جب دن کو پریس کانفرنس میں ایک اعلٰی پولیس افسر بتا رہا ہے کہ کوئی متاثرہ لڑکی ملی ہی نہیں تو شام کو پنجاب پولیس کی خاتون افسر مبینہ متاثرہ لڑکی کے والد اور چچا کے ساتھ ویڈیو بیان کیسے جاری کر رہی ہیں؟
آواز دبانے کا یہ معاملے زینب کے کیس سے شروع ہوا تھا لیکن بعد میں دیکھا گیا کہ زینب کو انصاف دلانے کیلئے ہر طبقہ باہر نکلا اور پھر زینب کیس ایک مثال بن گیا۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ پنجاب کالج کا کیس بھی مشعل راہ بنے گا اور آئندہ کوئی کسی بیٹی پر درندگی جھاڑنے سے پہلے اپنے انجام سے خوف کھا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button