سائنس اور ٹیکنالوجیمتفرق

اب مصنوعی ذہانت سے ہوگا گائے بھینسوں‌کا خیال

آپ نے مصنوعی ذہانت سے اپنا تعلیمی یا آفس کا کام آسان بنایا ہوگا۔  آپ نے بہت سے کام آٹومیشن پر لگا دیئے ہوں گے جن سے آپ کی دی گئی ہدایات کے مطابق وہ کام خود بخود مصنوعی ذہانت سے ہو جاتے ہیں۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اب گائے بھینسوں کی دیکھ بھال بھی مصنوعی ذہانت سے ممکن ہو چکی ہے۔  اس سے نہ صرف آپکا کام آسان ہو رہا ہے  بلکہ دودھ کی کی پیدوار میں اضافہ بھی ممکن ہو رہا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے استعمال سے گائے بھینسوں کی دیکھ بھال:

 

یہ کہانی ہے شمالی انڈیا کی ریاست پنجاب کی جہاں ہرپریت سنگھ نامی شخص اپنی گائے بھینسوں کی دیکھ بھال بھی اے آئی کی مدد سے کر رہا ہے۔

ہرپریت سنگھ گائے کی ٹانگ یا گردن پر آئے آئی ڈیوائس نصب کرتے ہیں جس کے بعد انہیں گائے سے متعلق معلومات مہیا ہوتی ہے کہ کب کس گائے کو کھلانا ہے، کب اسے نہیں کھلانا، ٹمریچر کیا ہے، یا گائے کو سردی یا گرمی تو نہیں لگ رہی ہے؟

انہیں یہ سسٹم یونیورسٹی کے ماہرین نے ترتیب دے کر مہیا کیا تھا اور اب انہیں اپنے موبائل پر نوٹیفکیشن موصول ہوتے ہیں جس کے بعد اگر انہیں کسی گائے میں معمول سے ہٹ کر سرگرمی موصول ہو تو وہ اسکی مناسب دیکھ بھال کرتے ہیں تا کہ بیماری سے بچایا جا سکے۔

مزیدپڑھیں:پاکستان میں 5 بہترین ٹیک بزنس آئیڈیاز

ہرپریت سنگھ کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ان کا علاج میں لگنے والا پیسہ کم ہوا ہے جبکہ دودھ کی پیداوار میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 100 سے زائد مویشی ہونے کی وجہ سے ہر ایک کی دیکھ بھال کرنا ممکن نہ تھا لیکن اب ایسا ممکن ہو گیا ہے۔

ہرپریت سنگھ نے دودھ نکالنے کیلئے بھی جدید مشینری لگا رکھی ہے جس کی مدد سے دودھ خود بخود کنٹینر تک پہنچا جاتا ہے اور وہاں سے کمپنی اسے خرید لیتی ہے

۔یہ مثال مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی طرف اشارہ ہے اور یہ ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

پاکستان میں ایسی تحقیق کی ضرورت کیوں؟

 

پاکستان میں مصنوعی ذہانت کا اس درجے تک استعمال ممکن بنانے کیلئے مکمل ریسرچ کی جانی چاہیے۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے بطور ویٹرنری ڈاکٹر اپنی ڈگری کی تکمیل کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں ملازمت کے مواقع میسر نہیں آرہے۔

حکومت ان نوجوان ذہنوں کو قابل ریسرچرز کے ساتھ جوڑ کر اس فیلڈ میں تحقیق کے نئے راستے کھول سکتی ہے۔

پاکستان میں اس وقت اس تحقیق پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ آج بھی جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں ہمارے ہاں لمپی سکن جیسی بیماریاں سینکڑوں جانوروں کی جان لے لیتی ہیں اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بین الاقوامی اداروں کی امداد کے منتظر رہتےہیں۔

اس لئے پاکستان میں مصنوعی ذہانت کے اس استعمال پر تحقیق اور عملدرآمد لازم ہو چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button