
پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان چھینے جانے کے بعد سے مخالف سیاسی جماعتیں کافی خوش دکھائی دے رہی ہیں۔ ان پارٹیوں کے سینئر سے زیادہ نومولود رہنما اس فیصلے پر زیادہ ناچتے نظر آتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ شاید وہ اپنی ہی پارٹیوں کے ماضی سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔
اگر ایسے نئے سیاسی رہنماؤں کو اپنے سینئر پارٹی رہنماؤں سے مل بیٹھنے کا موقع ملے تو وہ انہیں بتائیں گے کہ سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان چھینا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ان سیاسی جماعتوں سے ماضی میں ان کے انتخابی نشان تبدیل کیئے جاتے رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی سب سے بڑی سیاسی حریف پارٹی مسلم لیگ ن پر بھی ایسا وقت گزر چکا ہے جب ان کے پارٹی کا نشان تبدیل کیا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن اپنے انتخابی نشان شیر پر فخر کرتے ہوئے اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کو اکثر شیر سے تشبیہ بھی دیتی رہتی ہے۔ اکثر انتخابات میں ن لیگ کا الیکشن کا نعرہ بھی یہی رہا ہے کہ ” شیر آرہا ہے”۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ شیر کا یہ نشان ن لیگ کو حادثاتی طور پر ملا۔
صرف حادثاتی طور پر انتخابی نشان ملنا ہی نہیں بلکہ اس کے بعد میاں محمد نواز شریف شیر کا نشان تبدیل کرانے عدالت بھی گئے۔ تاہم عدالت سے ریلیف نہ ملنے کے بعد ن لیگ کو بالآخر بھاری دل سے شیر کا نشان تسلیم کرنا پڑا۔
اس سے قبل مسلم لیگ کا انتخابی نشان سائیکل ہوا کرتا تھا۔ 1990 کے الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد نامی انتخابی الائنس کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ نے الیکشن لڑا، جس کے بعد نواز شریف وزیر اعظم بنے۔ اس اتحاد کا انتخابی نشان بھی سائیکل ہی تھا.
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی الیکشن لڑ پائے گی ؟ فیصلہ کن گھڑی آ پہنچی
تاہم یہ اتحاد آہستہ آہستہ کر کے ایسا ٹوٹا کہ بالآخر مسلم لیگ بھی دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ مسلم لیگ نواز گروپ اور مسلم لیگ چٹھہ گروپ۔ دونوں الیکشن میں الگ الگ اترنا چاہتے تھے اور دونوں سائیکل کے انتخابی نشان کے امیدوار تھے۔
جب الیکشن کمیشن میں دلائل کے باوجود کسی نتیجے پر نہ پہنچا جا سکا تو ٹاس کرایا گیا، جس میں سائیکل کا نشان چٹھہ گروپ کو مل گیا اور نواز گروپ کو شیر کا انتخابی نشان الاٹ کر دیا گیا۔نواز شریف اس فیصلے کو تبدیل کرانے اور شیر کا نشان واپس لینے عدالت پہنچ گئے. تاہم وہاں بات نہ بنی اور بالآخر مسلم لیگ ن کو بھاری دل کے ساتھ یہ فیصلہ قبول کرنا پڑا۔
اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار ہوا کرتا تھا۔ تاہم ضیاء الحق نے جب حکومت پر قبضہ کیا اور بھٹو کو بے دخل کرنے اور پھانسی پر لٹکانے کے بعد ضیاء الحق نے جب غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرائے تو انتخابی نشان کی فہرست میں تلوار کا نشان ہی نہیں تھا۔
1985 کے ان الیکشن کا تو پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا تاہم 1988 میں جب پیپلز پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا تو تب تلوار کا نشان میسر نہ تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو تیر کا نشان دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے اسی نشان پر الیکشن لڑا اور حکومت بھی بنائی۔
آج تحریک انصاف سے انتخابی نشان بلا چھینا گیا ہے تو ممکن ہے کہ سپریم کورٹ اس فیصلے کو کالعدم بھی قرار دے دے۔ اگر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے فیصلے کوبرقرار بھی رکھے تو آج کے دور میں جہاں سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی انٹرنیٹ کی آنکھ مچولی کے باوجود لاکھوں لوگوں پر مشتمل ورچوئل جلسہ کر سکتی ہے اس تک نئے نشان یا کسی اور حکمت عملی کے تحت الیکشن لڑنا کوئی بعید بات نہیں۔