ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دنیا

ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اسے ہر دور میں مختلف نام دئیے جاتے رہے ہیں۔ کبھی اسے ٹیکنالوجی کی دنیا کہا گیا تو کبھی سپرپاورز کی دنیا۔ کبھی اسے امن کی دنیا کہا گیا تو کبھی جنگ کی دنیا ۔لیکن آج کے دور میں دیکھا جائے تو یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دنیا ہے۔
ایک عام شہری سے اگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بارے پوچھا جائے تو وہ آپکو ان سے مرعوب نظر آئے گا۔ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں لیکن اگر آپ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں پر غور کریں تو آپکی مرعوبیت تجسس میں تبدیل ہو گی ۔یہ تجسس آپکو سوچنے پر مجبور کرے گا اور پھر آپ سوچیں گے تو ان کمپنیوں کی حقیقت آپکے سامنے آنکلے گی۔
اگر ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات پر روشنی ڈالیں تو ہم یہ دیکھیں گے کہ ہر شعبہ زندگی میں ان کی مصنوعات موجود ہیں۔ یہ کمپنیاں آپکو برقی آلات، کمپیوٹرز، ادویات، پیٹرولیم مصنوعات ، گھریلو استعمال کی چیزیں ، مشروبات، کاسمیٹکس، کپڑا سازی، زرعی آلات الغرض آپکو سب بناتی نظر آئیں گی۔
صبح اٹھ کر آپ جس صابن سے نہاتے ہیں ،اس سے لیکر رات کو سوتے وقت جس تکیے پر سر رکھتے ہیں یہ سب ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پیداوار ہیں۔ یہ کمپنیاں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں اور اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو اس کے بہت خطرناک نتائج برآمد ہو ں گے۔
مزید پڑھیں : ہمیں کیسا تعلیمی نظام چاہیے
اگر آپ ان کمپنیوں کے بجٹ پر نظر دوڑائیں تو سب سے کم بجٹ رکھنے والی ملٹی نیشنل کمپنی کے اثاثے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے بجٹ سے دو یا تین گنا ہو گا۔ اب یہ کمپنیاں ترقی پذیر ممالک کے کرپٹ اور عیاش حکمرانوں کا سہارا لے کر ان ممالک میں گھستی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا روپ دھار لیتی ہیں۔ پھر دن بدن یہ کمپنیاں مقامی صنعتوں کو کھاتی جاتی ہیں۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ان کمپنیوں نے زندگی کے قدرتی پن کو ختم کر دیا۔ پاکستان جیسے ممالک جہاں قدرتی اشیاء کی فرا وانی ہوا کرتی تھی آج یہاں قدرتی چیزیں ڈھونڈنے سے بھی خالص نہیں ملتی۔
ترقی پذیر ممالک دراصل ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جنت ہیں ،یہ کمپنیاں یہاں کے وسائل اور افرادی قوت کا بے دردی سے استعمال کرتی ہیں ۔ یہ کمپنیاں یہاں دن بدن اپنی مصنوعات متعارف کرواتی ہیں اور ساتھ ہی اشتہار بازی سے ان ممالک کے نو جوانوں کی مادی ہوس کو ابھارتی ہیں ۔
یوں نوجوان نسل جو دراصل ان کمپنیوں کا اصل نشانہ ہوتی ہے ان کے نرغے میں آجاتی ہے۔ پھر یہ نوجوان نسل بیٹھ کر اپنے آباؤ اجداد کا مذاق اڑاتی ہے جو ان کمپنیوں سے نا واقف رہے ۔ اور پھر جب وطن عزیز کے کسی کلاس روم میں اس موضوع پر بحث ہوتی ہے اور نوجوان قہقہہ لگاتے ہوئے بتاتے ہیں کے میرے دادا کو "آئی فون” کا پتا نہیں چلتا تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان مسکراتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ اسی وقت کسی بزرگ کے رخسار پر آنسو بہہ نکلتا ہے۔
اگر ہم ان کمپنیوں کے طریقہ واردات پر روشنی ڈالیں تو سب سے پہلے یہ ترقی پذیر ممالک میں اشتہار چلائیں گے کہ آپ زراعت میں بہت پیچھے ہیں، اگر آپ اپنی پیداوار میں اضافہ چاہتے ہیں تو ہمارا بیج استعمال کریں ۔ کسان یہ بیج لیتا ہے اور واقعی فصل اچھی ہوتی ہے ۔ اگلے سال جب پھر وہی بیج بویا جاتا ہے تو وہ فصل حاصل نہیں ہوتی۔ پوچھنے پر بتایا جاتا ہے کہ آپکو ہماری کمپنی کی کھاد استعمال کرنا پڑے گی۔
وہ استعمال کے اگلے سال فصل کو کیڑا لگ گیا پتا چل اس کا ایک خاص سپرے ہے وہ بھی یہی کمپنی بناتی ہے ۔ سپرے کا استعمال کیا جس سے کسان بھائی کو بیماری نے آ پکڑا ، ڈاکٹر کو چیک کروایا پتا چلا کہ اس کیلیے ایک دوا لینی پڑنی ہے ۔ساتھ ہی مزے کی بات پتا چلی کہ یہ دوا بھی وہی کمپنی بناتی ہے۔
یوں اس لطیفہ کی سی صورتحال بن جاتی ہے ایک شخص اپنے بچے کا داخلہ کروانے ایک پرائیویٹ سکول میں گیا۔ تو سکول کی انتظامیہ نے انہیں کہا کہ آپ اپنے بچے کا یونیفارم وہاں سے لیں گے جہاں سے ہم کہیں گے۔ والد نے رضامندی دکھائی۔ انہوں نے مزید شرائط سامنے رکھنا شروع کیں ۔
ہمارے سکول کے بینک میں آپ فیس جمع کرائیں گے ، آپ بچے کی کتابیں وغیرہ ہماری بک شاپ سے لیں گے، سکول کی وین سے بچے کو پک اینڈ ڈراپ دیں گے وغیرہ ۔۔ اس پر وہ صاحب مسکرا کر بولے، جناب ! بچہ بھی ہمارا ہو گا یا اس کا بندوبست بھی آپ خود ہی کر لیں گے۔
اگر خوراک بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں چاہیں تو دنیا سے خوراک کی قلت ختم ہو جائے ، اگر ادویات بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں چاہیں تو دنیا سے بیماریاں مٹ جائیں اور ان کمپنیوں کا کچھ نقصان بھی نہ ہو۔۔ لیکن یہ کمپنیاں وافر ادویات اور خوراک تلف کر دیں گی ضرورت مندوں کو نہیں دیں گی تا کہ ان کی اجارہ داری قائم رہے۔۔ ترقی پذیر ممالک کو چاہیے کہ وہ ان کمپنیوں پر قانون کی گرفت رکھیں اور انہیں اپنی اوقات میں رکھیں تو یہ خود ہی ان ممالک سے توبہ کریں گے جس سے مقامی انڈسٹری میں پھر سے جان آئے گی۔
2 Comments