اہم خبریںپاکستانعوام

اکنامک سروے آف پاکستان 2025؛ حکومت کا کسانوں کے معاشی قتل عام کا اعتراف

اکنامک سروے کی اس رپورٹ نے ظاہر کیا کہ زراعت جسے پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے، اب کمزور ہوتی اور ٹوٹتی دکھائی دے رہی ہے۔

معاشی سال 2025-26    کیلئے وفاقی بجٹ آج پیش کیا جا رہا ہے ۔

بجٹ سے قبل گزشتہ سال کی معاشی ترقی و تنزلی پر مبنی اکنامک سروے آف پاکستان 2025 کی رپورٹ وزارت خزانہ کی جانب سےشائع کی گئی۔

اس رپورٹ میں معیشت کو مختلف زاویوں سے پرکھا گیا۔

اکنامک سروے آف پاکستان 2025 کے اس رپورٹ میں حکومت نے خود ہی کسانوں کے اس معاشی قتل عام کا اقرار کر لیا گیا جس پر کسان پورا سال دہائی دیتے نظر آئے۔

 

اکنامک سروے کی اس رپورٹ نے ظاہر کیا کہ زراعت جسے پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے، اب کمزور ہوتی اور ٹوٹتی دکھائی دے رہی ہے۔

 

آئیے اکنامک سروے آف پاکستان کی رپورٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں زراعت کا شعبہ کس قدر مشکلات کا شکار ہے اور اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

 

اکنامک سروے آف پاکستان 2025 میں شعبہ زراعت کے زوال کا اعتراف:

 

اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان ممالک سال 2025 میں زرعی شعبے میں صرف 56۔0 فیصد کی ترقی دیکھنے کو ملی۔

یہ مالی سال 2024 کی متاثر کن 4۔6فیصد ترقی کے مقابلے میں خاصی کم ہے ۔

یہی نہیں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ دو فیصدکے ہدف سے بھی یہ ترقی بہت دور رہی۔

زرعی شعبہ کا GDP  میں کردار بھی کم ہو کر54۔23 فیصد رہ گیا جو کہ پچھلے سال 03۔24 فیصد تھا۔

زرعی شعبے کی تنزلی کی بڑی وجہ اہم نقد آور فصلوں کی پیداوار میں شدید کمی سامنے آئی۔ رپورٹ کے مطابق اہم فصلوں کی پیداوار 49۔13 فیصد کم رہی۔

کپاس کی بات کر دی جائے تو اس فصل کی پیداوار میں ریکارڈ 7۔30 فیصد کی کمی ہوئی اور مجموعی طور پر 08۔7 ملین بیلز پیداوار حاصل کی گئی۔

گندم جیسی بنیادی غذائی ضرورت تھی پیداوار میں بھی 8.9 فیصد کی کمی دیکھنے کو ملی اور پیداوار صرف 28.98 ملین رہی ملین ٹن رہی۔

مکئی کی پیداوار میں 15.4 فیصد کمی جبکہ گنے کی پیداوار میں 9۔3  فیصد کمی ہوئی اور اس کی پیداوار اس سال 84.24 ملین ٹن رہی۔

حیران کن طور پر چاول کی پیداوار بھی 1.4 فیصد کم ہو کر 9.72 ملین ٹن رہی۔

زراعت کے کئی ذیلی شعبوں میں مثبت ترقی بھی دیکھنے کو ملی جس میں لائیو سٹاک کا شعبہ شامل ہے ۔یہ شعبہ رواں سال 72۔4 فیصد کی ترقی دکھانے میں کامیاب رہا۔

اسی طرح آلو ، پیاز اور ماش کی اچھی پیداوار نے بھی گرتی ہوئی زرعی پیداوار کو کچھ حوصلہ دیا۔

 

مزید پڑھیں: کسان نئی نسل کو کاشتکاری پر آمادہ کرنے میں‌ناکام کیوں؟

 

فصلوں کی پیداوار میں کمی کی وجوہات:

 

حکومت کی جانب سے شدید موسمیاتی تبدیلیوں اور پانی  کی قلت کو پیداوار میں کمی کی وجوہات بتایا گیا۔

اگرچہ یہ دو اہم وجوہات تھیں لیکن حکومت کسانوں کیلئے قدرتی آفات سے بھی بڑی آفت ثابت ہوئی۔

حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ، سپرے اور کھاد کی قیمتوں پر کنڑول نہ ہونا، فصلوں کی امدادی قیمتیں مقرر نہ کرنا اور اگر قیمتیں مقرر کرناتو اس میں کسان کے اخراجات بھی پورے ہونے جیسی وجوہات وہ اصل وجوہات تھیں جس نے کسانوں کا معاشی قتلِ عام کیا۔

رواں سال بھی حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری نہ کرنا اور گندم کی امدادی قیمت کا کم تعین ہونا کسانوں کیلئے انتہائی تکلیف دہ معاملہ تھا۔

حکومت کی جانب سے کسان کارڈ اور چند ایک کسانوں کو سولر سسٹم دے کر جو ازالہ کرنا چاہا وہ نہ ہو پایا۔

رواں سال حکومت کی جانب سے جس طرح کسانوں کے ساتھ رویہ رکھا گیا ، کسان آئندہ سال گندم کم کاشت کرنے کی پہلے ہی دھمکی دے چکے ہیں۔

اسی طرح رواں سال کے اقتصادی سروے میں جس طرح کپاس، مکئی اور چاول کی پیداوار میں کمی دیکھی گئی ، آئندہ سال اس سے بھی زیادہ کمی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

بظاہر بجٹ میں بھی کسان کو کسی صورت ریلیف ملنے کا امکان نہیں ۔ دوسری طرف شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کسان پہلے ہی خسارے کا شکار ہے۔

پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی کہ زراعت پر اس سے مشکل وقت پہلے کبھی نہیں آیا ہے۔

حکومت کو موسمیاتی تبدیلیوں، پانی کی قلت جیسے مسائل کے حل کے ساتھ کسانوں کی داد رسی بھی کرنی  ہو گی ورنہ معیشت کا یہ ستون کمزور تر ہوتا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button