
سپریم کورٹ آف پاکستان میں خطوط لکھنے کا سلسلہ تھم نہ سکا اور اب کی بار جسٹس منصورعلی شاہ نے خط لکھ ڈالا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی پر اپنا خط لکھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے آرڈیننس کے تحت قائم کمیٹی میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ کہا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی تشکیل کا فیصلہ فل کورٹ کا تھا اور اس میں رد و بدل یا تو فل کورٹ بنچ یا فل کورٹ اجلاس کے ذریعے ممکن ہے۔جب تک کمیٹی کو اصل حال میں بحال نہیں کیا جاتا، شرکت نہیں کروں گا۔
یاد رہے کہ آج ہونے والے اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ نے شرکت نہیں کی جب کہ ان کی غیر موجودگی میں بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اجلاس جاری رکھتے ہوئے جسٹس امین الدین خان کی مشاورت سے 63 اے نظرثانی کیس اور آڈیو لیک کیس سماعت کیلئے مقرر کر دیا۔
اپنے لکھے گئے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے کئی سوالات اٹھا دیئے۔ ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے چند گھنٹوں کے اندر ہی کمیٹی نوٹیفائی کی گئی، کمیٹی کو دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے اس بارے میں کوئی وجہ نہیں بتائی گئی،دوسرے سینئر ترین جج جسٹس منیب اختر کو کمیٹی کی تشکیل سے ہٹا دیا گیا، یہ نہیں بتایا گیا کہ کیوں اگلے سینئر ترین جج کو نظر انداز کیا گیا اور اس کی بجائے چوتھے سینئر ترین جج کو کمیٹی کے رکن کے طور پر نامزد کیا گیا۔
مزید پڑھیں: اب چیف جسٹس کیلئے آئین و قوانین میںتبدیلیاں ہو ںگی
جسٹس منصورعلی شاہ نے اس ترمیم کو ون مین شو قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون ون مین شو کو ختم کرنے کیلئے ہی ترتیب دیا گیا تھا۔
صحافی بشرچوہدری کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کا فُل بنچ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کی آئینی درستگی کا تعین کرے یا سپریم کورٹ انتظامی طور پر آرڈیننس میں ترامیم پر عملدرآمد کا فیصلہ کریں اور تب تک چیف جسٹس پہلے والی ججز کمیٹی کو بحال کریں۔ میں نئی تشکیل کردہ کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا۔
بشیر چوہدری کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کا ججز کمیٹی کو اہم خط، کاپی تمام ججز کو بھی بھیج دی گئی ہے۔