پاکستانجرم و سزا

صحافیوں کو کام کرنے کیلئے عدالت سے رجوع کیوں کرنا پڑ رہا ہے

صحافت میں مختلف قسم کی بیٹس ہوتی ہیں جس میں سیاست کی بیٹ، معیشت کی بیٹ، جرائم کی بیٹ وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ ان میں اس ایک کورٹ رپورٹنگ کی بیٹ بھی ہے جس میں صحافی عدالتی معاملات کو کور کرتے ہیں۔
آج سے چند سال قبل تک جب عدالتی معاملات صرف عوام کی کیسز تک محدود تھے اور اکا دکا سیاسی معاملات ہی عدالت آیا کرتے تھے،اس وقت یہ بیٹ انتہائی اہم نہیں ہوا کرتی تھی۔
تاہم 6 سے 8 سال قبل جب نواز شریف کے کیسز عدالتوں میں آئے اور اسکے بعد اب عمران خان اور پی ٹی آئی کے کیسز عدالتوں میں آنے لگے ہیں تو کورٹ رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی مانگ بڑھ گئی ہے اور رات میں مین سٹریم میڈیا پر چلنے والے بیشتر شو بھی اسی نوعیت کے ہوتی ہیں۔
تاہم اس سے قبل سیاسی معاملات کھلی عدالتوں میں چلا کرتے تھے جہاں باآسانی رپورٹرز خبریں اکٹھی کر کے اپنے چینلز تک پہنچا دیا کرتے تھے۔ عمران خان کے کیسز میں جیل ٹرائل ہونےکی وجہ سے صحافیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
عمران خان کے ان کیسز کو اوپن ٹرائل کا نام دیا جاتا ہے اس لئے اس دوران صحافیوں کو عمران خان سے گفتگو کی اجازت بھی ہوتی ہے اور صحافی کورٹ روم کے باہر اپنے وی لاگز میں عدالتی سماعت کا احوال بھی بتاتےہیں۔

مزید پڑھیں:طلعت حسین پرو عمران ، اینٹی عمران یا صحافی؟

تاہم پی ٹی آئی اور خصوصاً عمران خان کے کیسز میں اب صحافیوں کو بھی عدالت سے رجوع کر کے سماعت کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ سینئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر پر بھی اسی حوالے سے جیل انتظامیہ نے اڈیالہ جیل میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
آج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی عدالت نے جیل انتظامیہ کی طرف سے عائد پابندی کو ختم کرتے ہوئے انہیں سماعت سننے کیلئے کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت دے دی۔
عدالتی فیصلے کے بعد اپنی رائے دیتے ہوئے ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ یہ بھی زمانہ آنا تھا اڈیالہ جیل حکام نے اہم کیسز کی کوریج کے لیے جیل داخلے پابندی لگائی تھی اس کو ختم کرانے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔
یاد رہے کہ ثاقب بشیر سینئر کورٹ رپورٹر ہیں اور وہ اسلام آباد ہائیکورٹ جنرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button