اہم خبریںپاکستان

جب بھٹو کمزور عدلیہ کی وجہ سے پھانسی کے پھندے کو پہنچے

ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے تھے اور جب انہیں ایک قتل کے کیس میں مارشل لاء دور میں گرفتار کیا گیا تو وہ بظاہر یہ سمجھتے تھے کہ ان پر بنا یہ کمزور کیس اعلیٰ عدلیہ میں نہیں ٹھہر پائے گا۔

26 ویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان کی عدلیہ کے کمزور ہونے کا تاثر عام ہوتا جارہا ہے۔

پھر کسی اغواء شدہ شہری کی بازیابی میں ہائیکورٹ کے جج کی بے بسی ہو یا ملٹری کورٹس کی سزاؤں کو درست دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ، ہر معاملہ اس تاثر پر سند کا کام کر رہا ہے۔

عدلیہ کے زوال پر صرف عوام، سیاسی جماعتیں، وکلاء ہی احتجاج نہیں کر رہے، معزز عدالتوں کے جج صاحبان بھی یہاں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

کبھی ہائیکورٹ کے معزز جج سپریم کورٹ کو بتاتے ہیں کہ آزادانہ فیصلے کرنے پر ان پر کیا گزر رہی ہے تو کبھی یہ جج کسے فیصلے کے غلط ہونے پر اپنی اقلیتی ہی سہی لیکن اختلافی رائے دے دیتے ہیں۔

اس اختلافی رائے کے نتیجے میں ان ججز کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کی دھمکیاں دی جاتی ہے، سوشل میڈیا پر تضحیک آمیز کیمپین بھی چلائی جاتی ہے۔ لیکن عدلیہ کے اندر سے انہیں نہ انصاف نہ ملتا ہے، نہ داد رسی کی جاتی ہے۔

حالیہ دنوں میں چند ایسے واقعات بھی دیکھنے کو ملے ہیں جس میں اقلیتی رائے رکھنے والوں کی آواز ہی دبا دی گئی۔

کمزور عدلیہ اور نقصان اٹھانے والی سیاسی جماعتیں:

 

آج 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد پی ٹی آئی وہ جماعت معلوم ہوتی ہے جو کمزور عدلیہ کی وجہ سے کئی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن رہی ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن وہ جماعتیں معلوم ہوتی ہیں جو اس ترمیم سے فائدہ اٹھانے والی ہیں۔

پی ٹی آئی کیلئے تو یہ پہلی بار ہوا ہے لیکن ماضی میں کمزور عدلیہ کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو بہت کچھ سہنا پڑا ہے۔

26 ویں آئینی ترمیم کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے اور اس کیلئے بروٹ میجورٹی (Brute Majority) کی اصطلاح استعمال کرنے والے بلاول بھٹو زرداری کی نانا ذوالفقار علی بھٹو کمزور عدلیہ کی وجہ سے پھانسی کی سزا پا گئے۔

اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کو بھی بارہا کمزور عدلیہ کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔

مشرف کے مارشل لاء کمزور عدلیہ کی وجہ سے نواز شریف کو کئی سال پردیس میں گزارنا پڑے اور کچھ عرصہ ناحق قید بھی کاٹنا پڑ گئی۔

 

مزید پڑھیں: عمران خان 26 ویں آئینی ترمیم کے دو نتائج سامنے لے آئے

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور کمزور عدلیہ:

 

ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے تھے اور جب انہیں ایک قتل کے کیس میں مارشل لاء دور میں گرفتار کیا گیا تو وہ بظاہر یہ سمجھتے تھے کہ ان پر بنا یہ کمزور کیس اعلیٰ عدلیہ میں نہیں ٹھہر پائے گا۔

لیکن وہ یہ بات نظر انداز کر رہے تھے کہ جتنا ان کا کیس کمزور ہے، اس سے کئی زیادہ کمزور مارشل لاء کے زیر تسلط عدالتیں ہیں۔

اور پھر وہی ہوا، فیئر ٹرائل کا موقع نہ ملنے کی وجہ سے بھٹو پھانسی کی سزا پا گئے۔

ان کی سزا کے فیصلے پر فائل کئے گئے ریفرنس پر گزشتہ سال سپریم کورٹ نے تقریباً 44 سال کے بعد یہ تاریخی فیصلہ جاری کیا کہ بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں ملا۔

لیکن اب بھٹو کی پھانسی واپس نہیں ہوسکتی تھی۔

یہ فیصلہ جس وقت سنایا گیا اس وقت بھی عدلیہ کوئی خاص اچھے حالات میں نہ تھی۔

یہ 26 ویں آئینی ترمیم کی پلاننگ کا دور تھا۔ اگرچہ اس فیصلے میں عدالت نے یہ رائے دی کہ فیصلے کو اب ختم تو نہیں کیا جاسکتا لیکن آئندہ کیلئے عدالتی نظیر بن گئی ہے۔

لیکن افسوس یہ نظیر زیادہ دیر نہ چل سکی۔ اس کے بعد آئینی ترمیم ہوئی اور اس کے نتائج  اب خوفناک طریقے سے برآمد ہو رہے ہیں۔

جس طرح بھٹو کیس کا فیصلہ غلط قرار دیئے جانے کیلئے 44 سال گزر گئی، موجودہ دور کی 26 ویں آئینی ترمیم اور اس کے بعد کے فیصلوں کو ریورس کرنے کو شاید اس دے گنا وقت درکار ہو۔

لیکن یہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کیلئے سبق ہے کہ ماضی میں وہ کمزور عدلیہ کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔

آج اگر پی ٹی آئی اس کمزور عدالتی نظام کا نشانہ بن رہی تو کل کی باری ان کی ہوگی۔ لیکن افسوس تب تک دیر ہو چکی ہوگی۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button