
تھیلیسیمیا کا شکار افراد بالخصوص بچوں کیلئے زندگی کی نئی امید اس وقت پیدا ہوئی جب چائنہ کی شہر شنگھائی کی فوڈان یونیورسٹی کے چلڈرن وارڈ میں زیر علاج تھیلیسیمیا کا شکار 4 سالہ بچی کا کامیاب علاج کیا گیا۔
چین میں تیار کردہ اس نئے طریقہ علاج نے نہ صرف پاکستان کی 4 سالہ ننھی عائزہ کو خون لگوانے کی بندش سے آزاد کر دیا، بلکہ اس نے لاعلاج سمجھی جانے والی اس موروثی بیماری کے علاج کیلئے نئی راہ کھول دی ہے۔
پاکستانی بچی تھیلیسیمیا سے مکمل آزاد:
ننھی عائزہ کی پیدائش کے بعد ان کے والد کو جب معلوم پڑا کہ ان کی بیٹی تھیلیسیمیا کا شکار ہے تو ان کیلئے یہ امتحان والا مرحلہ تھا۔
اس ننھی سی جان کو ہر ماہ خون کی منتقلی پر زندہ رہنا تھا اور یہ سب سے تکلیف دہ بات تھی۔
عائزہ کے والد محمد عدیل فزکس کے ریسرچر ہیں اور وہ ہانگ کانگ میں بطور ریسرچ فیلو کام کر چکے ہیں، انہوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے جانا کہ چائنہ میں اس بیماری کاعلاج ممکن ہے۔
اس کے بعد جنوری میں والدین عائزہ کا شنگھائی لے کر آئے جہاں انہیں علاج کیلئے اس ہسپتال کے سپرد کیا گیا۔
اس جدید طریقہ علاج سے گزرنے کے بعد عائزہ اب خون کی منتقلی سے آزاد ہو گئی ہیں اور اب ان کے اپنے جسم میں خون بننا شروع ہو چکا ہے۔
علاج مکمل ہونے پر ننھی عائزہ کے اعزاز میں ایک چھوٹی سی تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا۔
یہ نیا طریقہ علاج کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جس میں ہیموگلوبن کی مناسب مقدار جسم میں پیدا نہیں ہو پاتی ہے۔
اس کی وجہ سے مریض خون کی شدید کمی کا شکار ہوتا ہے اور اسے خون کی منتقلی پر انحصار کرنا پڑتا ہے ورنہ اس کی جان خطرے میں ہوتی ہے۔
چین میں جس طریقہ علاج سے عائزہ صحتیاب ہوئیں اسے CS-101کا نام دیا گیا ہے۔
یہ Base-Editing جین تھراپی پر مبنی دوا ہے جسے جسے شنگھائی کی ایک بائیوٹیک کمپنی Correct Sequence Therapeutics نے تیار کیا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے تحت انسانی جسم میں پائے جانے والی ایسے جین جو اس بیماری کی وجہ بن رہےہیں میں ایک چھوٹی لیکن اہم تبدیلی کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: وہ پانچ نشانیاں جو گردے خراب ہونے پر سامنے آتی ہیں، لیکن ہم نظر انداز کرتے
ڈی این اے کی اس بیس کی تصحیح ہوتے ہی جسم ہیموگلوبن بنانا شروع کر دیتا ہے جس سے بیماری کے اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔
اس عمل کے دوارن مریض کے جسم سے اسٹیم سیلز (Stem Cells) حاصل کئے جاتے ہیں جنہیں اس نئی ٹیکنالوجی سے گزارا جاتا ہے۔
اس کے بعد ان سیلز کو دوبارہ جسم میں داخل کیا جاتا ہے جس سے مریض کے جسم میں دوباہر خون بننے لگتا ہے اور وہ اس بیماری کے چنگل سے آزاد ہو جاتا ہے۔
یہ طریقہ علاج کتنا مؤثر ہے؟
اگرچہ یہ طریقہ علاج ابھی مزید تحقیق کے مراحل میں ہے اس لئے اس کے مستقبل کے نتائج کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
لیکن اس کے ابتدائی نتایج نے سائنسدانوں کو حیران کن نتائج فراہم کئے ہیں۔
امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اگر یہ طریقہ مکمل طور پر قبل عمل ہو جاتا ہے تو ہر سال عائزہ جیسے سینکڑوں بچوں کو اس بیماری کے چنگل سے نکالا جا سکتا ہے۔