
عمران خان نے بیرسٹر گوہر علی خان کو نگران چیئرمین کیلئے منتخب کیا ہے۔ کہنے کو تو بیرسٹر گوہر علی خان نگران چیئرمین ہیں اور انہوں نے خود بھی پریس کانفرنس میں عمران خان کا ان پر اعتماد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تب تک نگران چیئرمین رہیں گے جب تک عمران خان واپس نہیں آجاتے۔
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد پہلے فیصلہے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم 20 دن کا وقت ملنے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے مسلسل خلاف فیصلے آنے کے بعد پی ٹی آئی نے اہم وقت پر کسی پیچیدگی سے بچنے کیلئے 2 دسمبر کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ایسے میں عمران خان کی نااہلی کے پیش نظر پی ٹی آئی نے ایک مشکل لیکن ضروری فیصلہ لیتے ہوئے نگران چیئرمین کے طور پر بیرسٹر گوہر علی خان کو منتخب کیا ہے۔
اس پر پی ٹی آئی کے اندر سے ہی دو مختلف رائے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک جانب بیرسٹر علی ظفر نے ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن کے ساتھ پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کیا کہ بیرسٹر گوہر اب چیئرمین رہیں گے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے قانونی امور کے ترجمان نعیم حیدر پنجھوتہ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ مائنس عمران خان نا منظور۔
کیا عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے کیلئے مائنس عمران خان کی شرط قبول کر لی ہے؟
اس پر سینئر صحافی بشیر چوہدری نے اپنے ٹویٹر بیان میں لکھا کہ "عمران خان نے چیئرمین پی ٹی آئی کے عہدے سے سبکدوشی اختیار کرکے جیل سے باہر آئے بغیر ہی پریس کانفرنس کر دی ہے
انہوں نے مزید لکھا کہ وکیلوں نے عمران خان کی جماعت کا خوب تماشا بنا دیا ہے۔اس سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ یہ سب کسی نہ کسی ایجنڈے پر تھے یا کسی کے پلانٹڈ تھے۔حامد خان واحد مخلص آدمی تھے جنھیں خان نے ہمیشہ کی طرح کھڈے لائن لگائے رکھا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا وکیلوں نے عمران خان سے پارٹی چھین لی ہے یا عمران خان نے پارٹی وکلاء کو سرنڈر کر دی ہے؟
مزید پڑھیں: کون کون پاکستان تحریک انصاف میںواپس آرہا ہے؟
بیرسٹر گوہر علی خان ہی کیوں؟
بیرسٹر گوہر علی خان کو پارٹی کے نگران چیئرمین بنانے پر بھی کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ان سے قبل کئی سینئر رہنما بھی پارٹی کا حصہ ہیں۔ چند سال قبل پیپلز پارٹی کا حصہ رہنے والے بیرسٹر گوہر علی خان نے ایک سال قبل ہی پی ٹی آئی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی ہے۔
ایسے میں سوال اٹھانے والے کہہ رہے ہیں کہ اگر نگران چیئرمین بنانا ہی مقصود تھا تو کسی سینئر پارٹی رہنما کو کیوں نہیں۔ وکیل تو حامد خان کیوں نہیں؟ سینئر رہنما تو علی محمد خان کیوں نہیں؟
پی ٹی آئی کے مطابق فیصلوں کا اختیار کور کمیٹی کے ہاتھ ہو گا اور عمران خان جیل میں ملاقات کرنے والے کور کمیٹی رہنماوؤں کے ذریعے مختلف امور پر تفصیلی حکم جاری کریں گے۔
آنے والے دنوں میں دیکھنا ہوگا کہ اگر پی ٹی آئی پر سختی کم ہوتی ہے، رہنماوؤں کو چھوڑا جاتا ہے۔ پارٹی کو الیکشن میں اترنے دیا جاتا ہے اور انتخابات کے بعد جیتنے کی صورت میں عمران خان کی بجائے کسی اور کو وزیر اعظم بنایا جاتا ہے یا الیکشن میں اکثریتی پارٹی نہ ہونے پر کسی اور رہنما کو قائد حزب اختلاف تو قبول کرنا ہوگا کہ مائنس عمران خان ہو چکا ہے۔