اہم خبریں

چیف صاحب ؛ صحافی سچ بولنا چھوڑ دیں یا کسی دوسرے ملک پناہ کی درخواست دیں؟

پریس ایسوایشن سپریم کورٹ آف پاکستان کے صدر اور سینیئر صحافی ذوالقرنین اقبال نے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کو صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر آگاہ کرتے ہوئے خط لکھ ڈالا۔

پریس ایسوایشن سپریم کورٹ آف پاکستان کے صدر اور سینیئر صحافی ذوالقرنین اقبال نے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کو صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر آگاہ کرتے ہوئے خط لکھ ڈالا۔
اپنے خط میں ذوالقرنین اقبال نے چیف جسٹس آف پاکستان کو عدالتوں میں صحافیوں کے ساتھ ہونے والے برتاؤ پر بھی آگاہ کیا اور سوال کر ڈالا کہ صحافی اپنے اہلخانہ کی حفاظت کیلئے سوال اٹھانا چھوڑ دیں یا پھر کسی ملک میں اسائلم (پناہ) کی درخواست دیں۔

ذوالقرنین اقبال کا چیف جسٹس کو خط:

پریس ایسوی ایشن سپریم کورٹ آف پاکستان کے صدر ذوالقرنین اقبال کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کے عنوان میں کہا گیا کہ صحافت جرم نہیں ہے۔
ذوالقرنین اقبال نے اپنے خط میں لکھا کہ ” آپ کو بھاری دل کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ آرٹیکل 19 اور 19A کو 10A سمیت دیگر بنیادی حقوق کے ساتھ پڑھا جانے کے باوجود پاکستان میں صحافیوں کو پورے ملک میں غزہ جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔”

صحافی فرحان ملک اور وحید مراد کا تذکرہ:

اپنے خط میں صدر پریس ایسوی ایشن نے لکھا کہ  "گزشتہ ہفتے سینئر صحافی فرحان گوہر ملک کو ایف آئی اے نے کراچی میں ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزام میں اس لیے گرفتار کیا کہ وہ حکمران اشرافیہ کے ناقد تھے، اور وہ اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔”
صدر سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن نے خط میں مزید لکھا کہ "آج، عین اس وقت جب لوگ سحری کی تیاری کر رہے تھے، چند نامعلوم افراد عبدالوحید کے گھر گھس آئے، جسے وحید مراد کہا جاتا ہے (اس وقت سعودی عرب کے میڈیا ہاؤس اردو نیوز سے وابستہ ہیں)، اس کی ساس کے ساتھ بدتمیزی کی، اور اسے اغوا کر لیا۔”
” یہ سب کچھ دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ میں ہوا اور پولیس اسٹیشن کراچی کمپنی نے تعاون کرنے سے انکار کردیا۔ موقع پر پہنچ کر مجرموں کا پیچھا کرنے کی کوشش کرنے والے نوجوان صحافی ثوبان افتخار راجہ کو نہ صرف وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کے موبائل فون، بیگ اور دیگر سامان بھی چھین لیا گیا۔”

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عدالت کیوں نہ گئے؟

صحافی ذوالقرنین اقبال نے چیف جسٹس کے ممکنہ جواب کو بھانپتے ہوئے خط میں لکھا کہ "آپ کے ذہن میں ایک سوال ضرور آیا ہوگا کہ ہم نے متعلقہ ہائی کورٹس سے رجوع کیوں نہیں کیا؟”
” جواب یہ ہے: جناب فرحان ملک کے معاملے میں، سندھ ہائیکورٹ نے ایف آئی آر کو منسوخ کرنے یا معطل کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
"گزشتہ ہفتے اسلام آباد سے اغوا کیے گئے سینئر صحافی احمد نورانی کے دو بھائیوں کی بازیابی کے لیے IHC میں حبس بے جا کی درخواست دائر کی گئی تھی۔”
ذوالقرنین اقبال نے لکھا  اول تو دو دن تک سماعت کیلئے مقرر ہی  نہیں ہوئی اور صحافیوں کے احتجاج پر جب سماعت کو مقرر ہوئی تو تو وقوعہ کے چوتھے روز متعلقہ ایس ایچ او کو طلب کیا گیا اور عدالت نے اس کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔”
” جسٹس انعام امین منہاس نے آئی جی اسلام آباد کو طلب کیا، لیکن ایک ہی دن یا اگلے روز بھی نہیں، اور اس کے بجائے سماعت 24 سے 27 مارچ تک ملتوی کر دی۔”

ججز کی قابلیت پر سوال اٹھ گئے :

چیف جسٹس کو خط میں ججز کی قابلیت پر بھی سوالات اٹھ گئے۔  ذوالقرنین اقبال نے لکھا کہ  ” جسٹس انعام امین منہاس نے ریمارکس دیئے کہ وہ ایسا کوئی حکم جاری نہیں کریں گے جس پر عمل درآمد نہ ہو۔ یہ معزز ججز کے حلف کے خلاف ہے، کیونکہ وہ آئین اور قانون کے مطابق احکامات دینے کے پابند ہیں۔ اگر احکامات کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو قانون کارروائی کا طریقہ بھی فراہم کرتا ہے۔”
انہوں نے مزید لکھا کہ ” چند روز قبل لاہور ہائی کورٹ میں ایک حبس بے جا کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی اور ایک نو تعینات خاتون جج نے اسے اس بنیاد پر خارج کر دیا تھا کہ سیکرٹری دفاع کو فریق بنایا گیا ہے۔
چونکہ وہ حاضر سروس فوجی افسر ہے (جو کہ حقیقت میں غلط ہے)، عدالت کے پاس کوئی حکم دینے کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ "
انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے، یہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے ایگزیکٹو کے سامنے مکمل ہتھیار ڈالنے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سرنڈر کی اصل وجہ 26ویں ترمیم ہے جس نے عدلیہ کو دانتوں سے محروم کر دیا ہے۔

صحافی سچ بولنا چھوریں یا کسی دوسرے ملک پناہ کی درخواست دیں؟

ذوالقرنین نے سوال اٹھا کہ "کیا ہم سب صحافی خود کو اور اپنے خاندان کو محفوظ رکھنے کے لیے ایگزیکٹو کی چاپلوسی شروع کر دیں اور سوال اٹھانا اور سچ بولنا چھوڑ دیں؟ یا ہمیں کسی بیرونی ملک میں پناہ لینا چاہیے اور تلخ حقائق سے پردہ اٹھانا شروع کر دینا چاہیے، جس سے یقیناً بین الاقوامی سطح پر ہمارے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔”
جاری واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے، کوئی بھی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ صرف شروعات ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس خط کا مصنف اگلا نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے کہ آگ مزید گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے اسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے خط کہ اختتام میں لکھا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس اس خط کو پٹیشن میں تبدیل کرنے، عدالت بلانے اور آج پروڈکشن آرڈر اور رہائی کے احکامات پاس کرنے کا اختیار ہے، کیونکہ یہ معاملہ انتہائی ضروری ہے۔

خط پر چیف جسٹس کا ردعمل:

خط پر چیف جسٹس کے رد عمل کی خبر دیتے ہوئے صحافی مریم نواز خان کا کہنا تھا کہ اطلاع ہے کہ جناب چیف جسٹس یحیی خان نے ذولقرنین اقبال کے خط پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھجوا دیا ہے اور حقائق کا جائزہ لینے کی ہدایت کر دی ہے!

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button