
پاکستان میں رواں سال اندازوں کے برعکس مون سون بارشوں، اور بھارت کی جانب سے آبی ذخائر میں پانی چھوڑنے کی وجہ سے ملک کے بڑا حصہ سیلاب کی زد میں ہے۔
سیلاب نے نہ صرف لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا ہے بلکہ سے نے لاکھوں ایکڑ زمین کو ڈبو دیا ہے جس سے ضروری فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔
اس سیلابی صورتحال کے ابھی تو ابتدائی نتائج ہی سامنے آئے ہیں جس میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ اور سپلائی لائن متاثر ہوئی ہے۔
لیکن آنے والے وقت زیادہ خطرناک ہوگا جب اس تباہی کے حقیقی نتائج غذائی قلت کی صورت میں سامنے آئیں گے ۔
یہ بحران معیشت پر ایک بہت برا اثر چھوڑے گا کیونکہ زراعت کو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔
سیلاب سے نقصانات پر رپورٹ:
الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب میں پنجاب کے تقریباً 2 ہزاردیہات متاثر ہوئے جس میں تقریباً 8 لاکھ لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔
اسی طرح ملکی سطح پر اس سیلاب نے تقریباً 20 لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ 5 لاکھ سے زائد مویشیوں کو بھی نقل مکانی کرانا پڑی۔
دستیاب معلومات کے مطابق ستمبر کے آغاز تک سیلاب سے 850 سے زائد اموات ریکارڈ کی گئیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 1200 کے قریب ہے۔ اسی طرح 6000 سے زائد مویشی سیلاب کی نظر ہوئے۔
2 ہزار سے زائد مکانات سیلاب میں مکمل طور پر بہہ گئے جبکہ 7 ہزار سے زائد مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔
نقصان میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ سیلابی صورتحال ابھی ٹلی نہیں ہے۔
جانی و مالی نقصان کے ساتھ زراعت کا شعبہ بھی بری طرح متاثرہ ہوا جہاں سیلاب سے فصلیں تباہ ہو گئیں۔ غیر حتمی رپورٹس کے مطابق صرف پنجاب میں 13 لاکھ ایکٹر سے زائد پر کھڑی فصلیں سیلاب کی نظر ہوئیں۔
اس سیلابی صورتحال سے کپاس، گنا ، چاول ، مکئی وغیرہ سمیت کئی فصلیں تباہ ہوئی ہیں جن کے اثرات اگلے چند سالوں تک دیکھے جاتے رہیں گے ۔
سیلاب سے فصلیں تباہ، کونسی فصل کتنی تباہ ہوئی؟
وسطی اور جنوبی پنجاب حالیہ سیلاب کا سب سے بڑا نشانہ تھا اور یہی علاقے پاکستان میں اناج کی پیدوار میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان بزنس فورم کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی سروے پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا کہ رواں سال سیلابی صورتحال سے فصلوں کا درج ذیل نقصان ہوا۔
چاول کی تقریباً 60 فیصد سے زائد فصل تباہ ہوئی۔ چاول پاکستان کی ایکسپورٹ کا ایک برا حصہ ہیں اور ملکی سطح پر بھی اس کی کھپت بہت زیادہ ہے۔
پاکستان بزنس فورم کے مطابق گنے کی تقریباً 30 فیصد فصل سیلاب کی ںظر ہوئی ہے۔
کپاس کی فصل میں 35 فیصد تک کمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
یہ چند بڑی فصلیں ہیں جن کے ابتدائی سروے سے اعداد و شمار نکالے گئے ہیں اور یہ حتمی نہیں ہیں۔
ان نقد آور فصلوں کے علاوہ سبزیوں اور پھلوں کی فصل بڑی سطح پر متاثر ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں: ہاؤسنگ سوسائٹیاں دریا برد؛ ذمہ دار کون، ازالہ کیسے ہوگا؟
کیا سیلاب سے تباہ فصلیں دوبارہ کاشت کرنا ممکن ہوگا؟
پاکستان میں اس وقت فصلوں کی تباہی کے بعد ایک سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا ان فصلوں کی دوبارہ کاشت کی جاسکتی ہے۔
فصلوں کی دوبارہ کاشت سے متعلق کئی عوامل ہیں جن پر سیر حاصل گفتگو ہی مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی صورت فراہم کر سکتی ہے۔
اول بات یہ کہ سیلاب سے متاثرہ ان علاقوں میں ابھی بھی پانی موجود ہے اور کئی مقامات پر سیلاب کی شدت میں اضافہ بھی متوقع ہے۔
ایسی صورت میں جب تک پانی کی مکمل طور پر نکاسی نہیں ہو جاتی فصلوں کی کاشت ممکن نہیں ہو گی۔
فصلوں کی دوبارہ کاشت میں ایک بڑی رکاوٹ یہ بھی ہے کہ سیلاب نے صرف فصلوں کو ہی تباہ نہیں کیا بلکہ اس نے زمین کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔
پانی کی نکاسی کے بعد زمینوں پر کافی کام کرنے کو ہوگا جس کی وجہ سے فوری کاشت ممکن نہ ہوگی۔
اسی طرح فصلوں کی کاشت کا ایک موسم ہوتا ہے ، ایک فصل کی دیر سے کاشت اگلی فصل کو بھی متاثر کرے گی اور یوں فصل خریف کے بعد فصل ربیع کی تباہی کے امکانات پیدا ہو جائیں گے ۔
پانی کی نکاسی بروقت ہو جائے، زمین دوبارہ سے کارآمد بنا دی جائے ، پھر بھی ان فصلوں کی دوبارہ کاشت ممکن نہ ہوگی۔
اس کی بڑی وجہ سیلاب سے قبل حکومتی سطح پر کی جانے والی کسان کی تباہی ہے۔
گزشتہ فصلوں سے نقصان اٹھانے والے کسان اب سیلاب کی نظر ہونے کے بعد لٹے پٹے دوبارہ فصل کیسے کاشت کریں گے؟
کسان حکومتی داد رسی کے منتظر:
سیلابی صورتحال ٹل جانے کے بعد اگر کسان ، حکومت اور بین الاقوامی ادارے مل کر بھی بحالی کے کام میں لگ جائیں تب بھی اس سیلاب کے اثرات آئندہ سالوں پر منتقل ہوں گے ۔
کسان جو سیلاب سے قبل ہی حکومتی اقدامات سے تباہ ہو چکا تھا اب بہت ضبط کر کے ہی آگے بڑے گا۔
اگر حکومتی ریلیف نظر نہ آیا تو کسانوں کو زراعت کو پھر سے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی والا اصول سمجھانا مشکل ہو جائے گا۔