
دنیا بھر کی طرح پاکستان سے بھی عازمین حج کے سعودی عرب پہنچنے کا سلسلہ جاری ہے۔ رواں سال سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کیلئے حج کوٹہ 179،210 عازمین کا رکھا گیا۔
اس حج کوٹہ کو سرکاری اور پرائیوٹ ٹور آپریٹرز میں یکساں طور پر تقسیم کیا گیا یعنیٰ کہ 89 ہزار 605 افراد۔
رواں سال سرکاری حج کیلئے اہل قرار دیئے جانے والے 89 ہزار 605 افراد ہی حج کر پائیں گے۔
لیکن پرائیوٹ طور پر حج کیلئے جانے والے عازمین میں سے صرف 23 ہزار سے 25 ہزار کے بیج افراد فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے جا سکیں گے۔
یوں 60 ہزار سے زائد درخواست گزار رواں سال حج کی سعادت سے محروم رہ جائیں گے۔
60 ہزار سے زائد پاکستانی حجاج فریضہ حج کی ادئیگی سے محروم کیوں؟
اس بارے میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف کا کہنا تھا کہ اس سال حج کیلئے مختص کئے گئے تمام لوازمات کو سرکاری سطح پر تو پورا کیا گیا۔
لیکن نجی آپریٹرز ان لوازمات کو پورا نہ کر سکے جس کی وجہ سے اس سال بڑی تعداد میں شہری فریضہ حج کی ادائیگی سے محروم ہو جائیں گے۔
پرائیوٹ ٹور آپریٹرز کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس سے قبل سعودی عرب میں یہ پالیسی تھی کہ پرائیوٹ حج آرگنائزر خود سعودی عرب جایا کرتے تھے۔
وہاں جا کر نجی آپریٹرز حج کیلئے ضروری خریداری جیسا کہ رہائش اور ٹرانسپورٹ کو ممکن بنایا کرتے تھے۔
مزید پڑھیں: حج 2025: بغیر محرم کے حج پر جانے والی خواتین کو کیا حلف نامہ دینا ہوگا؟
لیکن اس بار سعودی عرب کی جانب سے طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا اور تمام تر شرائط کیلئے ایک پورٹل قائم کر دیا گیا۔
ان تمام شرائط کو پورا کرنے کے بعد ہی یہ ممکن تھا کہ ویزوں کا اجراء ہو سکے۔
تاہم حکومت کی جانب سے حج آرگنائزرز کو اس تبدیلی کے بارے میں بروقت آگاہ نہ کیا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی نہ بتایا گیا کہ ان شرائط کو پورا کرنے کی ڈیڈ لائن 14 فروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پرائیوٹ ٹور آپریٹرز ان شرائط کو بروقت مکمل نہ کر پائے اور ویزوں کا اجراء نہ ہوسکا۔
یوں 60 ہزار سے زائد شہریوں کا حج کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔
ایڈوانس ادائیگی کرنے والوں کی رقم کا کیا بنے گا؟
حکومت کے مطابق جن پرائیوٹ آپریٹرز نے عوام الناس سے ایڈوانس رقم وصول کر رکھی ہے ، انہیں وہ واپس کرنا ہو گی۔
لیکن کیا شہریوں کو یہ رقم بروقت مل پائے گی؟ یہ معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نجی آپریٹرز کی جانب سے حج کیلئے جو رہائش ، ٹرانسپورٹ وغیرہ کا اہتمام کیا گیا تھا اس کی رقوم واپس آنا اب مشکل ہوگیا ہے۔
سعودی حکومت کو جانے والی رقوم تو واپس آنے کے چانسز موجود ہیں لیکن دیگر امور پر خرچ کی گئی رقم کی واپسی مشکل دکھائی دے رہی ہے۔
نجی ٹور آپریٹرز کی جانب سے حکومت سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنا کردار ادا کرے اور سعودی حکومت سے رابطہ کر کے رقوم واپس دلوائے۔
اگر ایسا نہ ہوسکا تو ان حج آرگنائزرز پر معاشی بحران آجائے گا جس کے ٹلنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں اور نتیجتاً عوام کو اپنے پیسے ملنے میں بھی دیر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
کیا یہ کوٹہ بحال ہونے کی کوئی صورت موجود ہے؟
اس بات کی امید اب دم توڑ چکی ہے کہ پاکستان کا ضائع ہونے والا یہ کوٹہ بحال ہو سکے کیونکہ ذرائع کے مطابق 60 ہزار سے زائد کا یہ کوٹہ پاکستان سے کہیں اور منتقل کر دیا گیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کے ساتھ اس سلوک کے پیچھے کون ہے؟ کیا یہ حکومتی نااہلی تھی یا پرائیوٹ آپریٹرز کی غلطی؟
اس بارے میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔ کمیٹی کی تحقیقات میں ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بعد کارروائی کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔
لیکن ان 60 ہزار سے زائد حجاج کرام کے دکھ کا ازالہ کون کر سکے گا جو تمام تر تیاریوں کے باوجود حکام کی نااہلی کی وجہ سے فریضہ حج سے محروم ہو گئے۔