میاں صاحب : الیکشن چھوڑیں پھر ریفرنڈم ہی کرالیں

پاکستان کی سیاسی تاریخ ڈکٹیٹرز سے بھری پڑی ہے۔ جمہوریت کے پودے نے جب بھی پنپنے کی کوشش کی،اسے بری طرح سے مسل دیا گیا۔ آمروں کا طریقہ واردات یہی رہا ہے کہ وہ 90 دن میں الیکشن کرانے کا وعدہ کر کے اقتدار پر قابض ہوتے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ پھر سالوں عوام کو الیکشن نظر نہ آتے۔
بین الاقوامی اور مقامی سطح پر پریشر بڑھنے کے ساتھ یہ آمر اپنے آپ کو سیاسی رنگ میں ڈھالنے کیلئے ریفرنڈم کا سہارا لیتے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار کے ریفرنڈم پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ حصہ ہے۔ان ریفرنڈم میں ہونے والی دھاندلی اپنی مثال آپ ہے۔
ان ریفرنڈم سے قبل عوام کو ہمیشہ پتا ہوتا تھا کہ نتیجہ کیا آنا ہے۔ پاکستانی سیاست اس وقت کچھ ایسے ہی دور سے گزر رہی ہے جہاں سے ابھی الیکشن ہونے بارے صورتحال اتنی واضح نہیں جتنی جیتنے والی پارٹی کی پیشگی تاج پوشی ۔ عوام اب بھی نہ صرف جانتی ہے بلکہ کھلے عام اظہار بھی کر رہی ہے کہ اگلی حکومت ن لیگ بنائے گی۔
نواز شریف کی ملک واپسی کے بعد سے مسلسل ایک بیانیہ ترتیب دیا جار ہا ہے جس میں میاں صاحب کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کے عمل کی بھرپور حمایت جاری ہے۔ صحافت سراسر سیاست میں ڈوبی ہے۔ اگرچہ میاں نواز شریف اس وقت الیکشن لڑنے کو نااہل ہیں، تاہم ان کے چاہنے والے آنے والے الیکشن میں ان کی نا اہلی کے خاتمے اوروزیر اعظم بننے کے ایسے پختہ دعوے کر رہے ہیں کہ بظاہر یہ ہوتا نظر آرہا ہے۔

مزید پڑھیں‌: انتخابات 2024: پی ٹی آئی کو موقع ملا تو امیدوار مرضی کے نہ ہونگے


اس حوالے سے مسلم لیگ ن کو کافی اشارے بھی مل چکے ہیں۔ خصوصا ً ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ جس پلڑے میں ہو، وہ پلڑا حکومت بناتا ہے۔ نواز شریف نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہی اسی عمل سے کیا۔
ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اب ن لیگ کیلئے بظاہر طعنہ بن چکا ہے۔ ان کے سیاسی حریف تاک تاک کر نشانے لگا رہے ہیں۔ ن لیگ کی حالیہ حکومت میں وزیر خارجہ رہنے والے بلاول بھٹو نے بھی آج کل توپوں کا رخ نواز شریف کی جانب کر رکھا ہے۔
دوسری جانب عمران خان جیل سے ہی میاں صاحب کو سپرلاڈلے کے لقب سے ایسا نوازا ہے کہ قائد مسلم لیگ ن کو اس لقب سے اپنا پیچھا چھڑانے کو باقاعدہ تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے۔
اس وقت مقبولیت کے لحاظ سے تمام تر سروے پاکستان تحریک انصاف کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاہم اپنے دور حکومت میں بری طرح کچلنے کے بعد اب ن لیگ اس انتظار میں ہے کہ کب پارٹی کو مکمل طور پر پابندی لگادی جائے۔
جس طرح سے واپسی کے بعد نواز شریف کو طاقت ور حلقوں کی جانب سے مکمل سپورٹ مہیا کی جارہی ہے اور ان کے مخالفین کو بری طرح کچلا جا رہا ہے اس سے گمان گزرتا ہے کہ طاقت ور حلقوں نے انہیں اقتدار سونپنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایسے میں اگر الیکشن کی بجائے ریفرنڈم کرا لیا جائے جس میں‌صرف نواز شریف صاحب کا نام ہو قوم کا وقت اور خزانے کی بہت بڑی بچت ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں