اہم خبریں

جب اپنے بنائے گئے قانون پر میاں‌صاحب سزائے موت سے بال بال بچے

ملک بھر میں وکلاء ، اپوزیشن جماعتیں اور عوام نئی آئینی ترامیم پر تنقید کررہے ہیں اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن اس میں ایک زیادہ شیئر کی جانے والے رائے یہ سامنے آرہی ہے کہ ماضی میں جس بھی حکومت نے بدنیتی پر مبنی کو آئینی ترمیم کی یا قانون بنایا تو بعدازاں وہ حکومت خود اس ترمیم یا قانون کا نشانہ بن گئی۔
یوں تو اس پر ہماری تاریخ میں کافی مثالیں ہیں ، لیکن اس کی ایک مثال سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دی۔ شاہد خاقان عباسی کی ایک ویڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر شیئر کی جارہی ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ 1998 میں میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے اور ان دنوں حکیم سعید کا قتل ہو گیا۔
شاہد خاقان بتاتے ہیں کہ اس کے بعد ایک قانون بنایا گیا کہ ملٹری کورٹس ہوں گی جو سمری ٹرائل کریں گی اور سزائیں دی جائیں گی۔ شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ 10 سے 12 لوگوں کو دہشت گردی کے جرائم میں سزا ہوئی اور انہیں پھانسی لگا دی گئی۔
تاہم سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے وہ قانون کالعدم کر دیا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس پر ہم غصے میں آگئے کہ ہم نے قانون بنایا تھا انہوں نے ختم کر دیا۔ مقصد یہ تھا کہ دہشت گردی کنٹرول کریں لیکن یہ ہمیں کام نہیں کرنے دیتے۔

مزید پڑھیں:ارشد شریف شہید کی دوسری برسی، پاکستان میں کیس کہاں تک پہنچا؟

شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا کہ اس قانون کو کالعدم ہونے کے چند ماہ بعد 1999 میں میاں صاحب کی حکومت ختم کر دی گئی اور ہم پر طیارہ سازش کیس بنادیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہائی جیکنگ پر لازمی سزائے موت ہے۔ اور تھا بھی آرمی چیف کی ہائی جیکنگ کا کیس، اگر وہ قانون موجود ہوتا تو ہمیں یقیناً ہفتے میں پھانسی لگا دی جاتی۔
شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ جب بھی آپ بدنیتی سے عدالتی نظام کو تابع کرنے کی کوشش کریں گے تو نقصان آپکا ہی ہوتا ہے۔
یوں عدلیہ کی جانب سے قانون کالعدم قرار دینے کی وجہ سے میاں صاحب سزائے موت سے بچ گئے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button