متفرق

عادتیں نسلوں کا پتا کیسے دیتی ہیں؟

"عادتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں"، یہ صرف سننے کو کوئی جملہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی اندر گہرائی رکھتا ہے۔

"عادتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں”، یہ صرف سننے کو کوئی جملہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی اندر گہرائی  اور فہم و فراست رکھتا ہے۔ آئیے ایک کہانی کے انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عادتیں نسلوں کا پتا کیسی دیتی ہے؟

عادتیں نسلوں کا پتا کیسے دیتی ہیں؟

ایک بادشاہ کے دربار میں اجنبی شخص ملازمت کی تلاش میں حاضر ہوا۔ پوچھا گیا: "کیا قابلیت ہے؟” جواب ملا سیاسی ہوں۔

بادشاہ کے پاس پہلے ہی سیاست دانوں کی بھرمار تھی، اس لیے اُسے خاص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج بنا دیا گیا۔
چار دن بعد بادشاہ نے اُسے اپنے سب سے قیمتی اور عزیز گھوڑے کے بارے میں رائے مانگی۔ اُس نے کہا: "یہ نسلی نہیں ہے۔”

بادشاہ کو حیرت ہوئی۔ اُس نے جنرل سے کہہ کر گھوڑے کے سائیس کو بلایا۔ اُس نے بتایا: "گھوڑا نسلی ہے لیکن اُس کی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی تھی۔ یہ گائے کے دودھ پر پلا ہے۔”

پھر نو جوان کو بلایا گیا۔ پوچھا گیا: "تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ نسلی نہیں؟” اُس نے کہا: "جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائے کی طرح سر جھکا لیتا ہے، جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سر اوپر رکھتا ہے۔”

بادشاہ اُس کی فراست سے بہت متاثر ہوا۔ نوجوان کے گھر اناج، گھی، بھنے ہوئے دنبے اور پرندوں کا عمدہ گوشت بطور انعام بھجوایا، ساتھ ہی اُسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا۔

چند دنوں بعد بادشاہ نے اُس نوجوان سے بیگم کے بارے میں رائے مانگی۔ نوجوان نے کہا: "ملکہ جیسی ہے، لیکن شہزادی نہیں۔”

بادشاہ کے قدموں تلے زمین نکل گئی۔ ہوش بحال ہوتے ہی اُس نے ساس کو بلایا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ اُس نے کہا: "حقیقت یہ ہے کہ تمہارے والد نے ہماری بیٹی کی پیدائش کے وقت رشتہ مانگا تھا، لیکن ہماری بیٹی صرف چھ ماہ میں ہی فوت ہو گئی تھی۔ بادشاہت سے رشتہ قائم کرنے کے لیے ہم نے کسی اور کی بچی کو اپنی بیٹی بنا لیا۔”

بادشاہ نے نوجوان سے پوچھا: "تمہیں کیسے معلوم ہوا؟” اُس نے کہا: "اُس کا خادموں کے ساتھ سلوک، جاہلوں سے بھی بدتر ہے۔ بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا۔ بادشاہ نے اُسے بھیڑ بکریاں انعام میں دیں اور اپنے دربار میں شامل کر لیا۔

کچھ عرصے بعد بادشاہ نے نوجوان کو بلایا اور اس سے اپنے بارے میں دریافت کیا۔ نوجوان نے کہا: "جان کی امان پاؤں تو عرض کروں؟”

 

مزید پڑھیں: وقت کی تنظیم یعنی کہ ٹائم منیجمنٹ کے 20 رہنما اصول

بادشاہ نے وعدہ کیا۔ نوجوان نے کہا: "نہ تو آپ بادشاہ لگتے ہیں، نہ ہی آپ کا چال چلن کسی بادشاہ جیسا ہے۔”

بادشاہ تو آگ بگولا ہوا، مگر وعدہ کر چکا تھا۔ سیدھا اپنی والدہ کے محل گیا۔ والدہ نے کہا: "یہ سچ ہے،تم ایک چرواہےکے بیٹے ہو۔ ہماری اولاد نہ تھی تو تمہیں گود لے کر پالا۔ ”

بادشاہ نے نوجوان کو بلایا اور پوچھا: "تجھے کیسے یقین ہوا؟” اُس نے کہا: "جب بادشاہ انعام دیتے ہیں تو ہیرے موتی، جواہرات دیتے ہیں۔ لیکن آپ بھیڑ بکریاں اور کھانے پینے کی چیزیں انعام میں دیتے ہیں، جو کہ کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی انداز ہو سکتا ہے۔

اس کا ماحصل یہ ہوا کہ عادتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں۔ انسان کچھ بھی کر لے چاہے منصبِ بادشاہت پر بیٹھ جائے، عادتیں اس کی نسلوں کا پتا دینے لگتی ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button