آرٹیکلزاویہسیاست

8 فروری 2024، جب جمہوری نظام سے عوام کا اعتماد اٹھا

8 فروری 2024 پاکستان میں کوئی عام دن نہیں تھا۔ ڈکٹیٹرز کے دور کے بعد یہ پہلی دفعہ ہو رہا تھا کہ الیکشن کیلئے آئین میں درج مدت مکمل ہونے کے بعد الیکشن کرائے جارہے تھے۔
یہ الیکشن بھی شاید اگر عالمی دباؤ نہ ہوتا تو نہ کرائے جاتے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تو ویسے بھی ایک سال نگران سیٹ اپ کے ذریعے نکال کر یہ دکھا دیا گیا تھا کہ ضروری نہیں کہ صرف ڈکٹیٹر مارشل لاء لگا کر انتخابی عمل سے بھاگ سکتا ہے، نئے دور کیلئے یہ نیا طریقہ بھی اپنایا جا سکتا ہے۔

8 فروری 2024 کا الیکشن پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کیلئے آخری موقع تھا:

الیکشن 2024 حالات حاضرہ کے مطابق سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کیلئے ایک آخری موقع تھا۔ یہ جماعت تقریباً دو سال سے جبر برداشت کر رہی تھی۔
پارٹی قائد جیل میں، سرکردہ قیادت یا تو جیل میں یا پارٹی چھوڑ چکی تھی، نام لیوا کارکنان یا تو جیل میں تھے یا اٹھائے جانے کے خوف سے منظر عام سے غائب۔ جو چہرے اس پارٹی کے دفاع پر تھے وہ یا تو وکیل تھے جو کے نئے چہرے تھے یا ایسی قیادت تھی جس پر اپنے کارکنان ہی کمپرومائزڈ ہونے کا الزام لگاتے تھے۔
مگر اس جماعت کے کارکنان ان ساری باتوں سے بالاترہو کر صرف ایک شخص کی طرف دیکھ رہے تھے جو کہ اس پارٹی کے قائد عمران خان تھے۔
عمران خان نے کارکنان کو 8 فروری کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کیلئے باہر نکلنے کی ہدایات جاری کر رکھیں تھیں اور کارکنان نے یہ باتیں پلو سے باندھ رکھی تھیں۔

الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کیلئے مشکلات:

الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کیلئے مشکلات کم نہ تھیں۔ سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا تھا۔
پارٹی کے بانی کو الیکشن سے قبل ہی پے درپے سزائیں سنا کر انتخابی عمل کیلئے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ جو پارٹی کی طرف سے کاغذات جمع کرانے کی کوشش کرتا وہ خود اٹھایا جاتا۔ اس کے تائید کنندہ تجویز کنندہ تک اٹھا لئے جاتے۔ انتخابات کیلئے فارم جمع کرواتے ہوئے کاغذات چھین لئے جاتے۔
یہ سب ہورہا تھا لیکن ملک کے سب سے بڑی عدالت خاموش بیٹھی تھی۔ نگران حکومتیں جو کہ گزشتہ حکومت کی ہی ایکسٹنشن تھی اس معاملے میں مکمل سہولتکار تھی۔
پھر بھی پی ٹی آئی کو ایک امید باقی تھی اور یہ امید تھی 8 فروری کے دن کی۔

جب عوام نے ووٹ کی طاقت دکھائی:

8 فروری کا دن پاکستان کی تاریخ کا حیرت انگیز دن تھا۔ مرد ، خواتین ، نوجوان ، بوڑھے سب ووٹ دینے کو باہر نکل آئے تھے۔
ایک پارٹی جس کے ہر امیدوار کا انتخابی نشان الگ تھا، کوئی بینگن کے انتخابی نشان پر تھا تو کسی کو دروازہ ملا تھا۔ الغرض عوام نے گاجر ، مولی، بینگن جو بھی نشان تھا ڈھونڈا اور ٹھپہ لگا دیا۔
انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج آنا شروع ہوئے تو سناٹا چھا گیا۔ پی ٹی آئی ہر جگہ سے آگے دکھائی دے رہی تھی۔ امید تھی کہ صبح ہونے تک پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ چکی ہو گی۔

مزید پڑھیں:‌الیکشن کا ایک سال؛ نواز شریف کے حلقے کے لوگ کیا سوچتے ہیں؟

عوامی مینڈیٹ کی توہین:

لیکن اس صبح کے درمیان ایک رات بھی تھی اور یہ رات انتہائی تاریک تھی۔ صبح ہوئی تو معلوم پڑا کہ جو امیدوار رات ایک لاکھ سے جیت رہا تھا وہ صبح ایک لاکھ سے ہار گیا ہے۔
امیدوار کے فارم 45 اور فارم 47 کا نتیجہ آپس میں میل نہیں کھاتا تھا۔ تیسرے چوتھے نمبر والے امیدوار جتوا دیئے گئے تھے۔ مخالف امیدوار بھی اپنے فارم 45 کی بنیاد پر گواہیاں دے رہے تھے کہ ان کے حلقے میں جیت پی ٹی آئی کے امیدوار کی ہوئی ہے لیکن نتائج بدل دیئے گئے تھے۔
چند ماہ قبل چوتھی بار وزیراعظم بنانے کیلئے لا ئے گئے نواز شریف بھی اپنی سیٹ ہار چکے تھے۔ شہباز شریف ، مریم نواز اور پتا نہیں کون کونسا برج تھا جو نہیں الٹا تھا۔ لیکن انہی الٹے ہوئے برجوں کو جوڑ کر ایک لولی لنگڑی حکومت بنا دی گئی تھی۔

8 فروری 2024 جب عوام کا جمہوری نظام سے بھروسہ اٹھ گیا:

8 فروری 2024 کی رات رزلٹ آنے کے بعد قوم کو ایک بار پھر ذلت محسوس کرائی جارہی تھی۔ جمہوری نظام سے عوام کا ایمان اٹھ رہا تھا۔لیکن جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کے علاوہ کسی جماعت کے سرکردہ رہنما یا سربراہ کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ ہاری ہوئی سیٹ طاقت کے بل بوتے پر لینے سے انکار کر کے عوام کا جمہوری عمل پر رہا سہا بھروسہ قائم رہنے دے۔
لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ یوں آج ایک سال مکمل ہونے کے بعد لوگ افسردہ ہو کر ایک سال قبل کی ووٹ دینے کے بعد انگوٹھے کے نشان کی تصویر شیئر کرتے ہوئے اپنے ووٹ کے حق کے چھن جانے کا رونا رو رہے ہیں اور جمہوری ںظام پر فاتحہ پڑھ رہے ہیں۔
ایسےس میں جن کا ووٹ چوری ہوا وہ صرف اس صوبے کے علاوہ کہیں احتجاج نہیں کر پارہے جہاں ان کی حکومت ہے۔ رہی بات ہاری ہوئی سیٹیں قبول کرنے والوں کی تو وہ بے شرمی سے ترقی کا ایک سال منا رہے ہیں حالانکہ یہ جمہوری نظام کی پہلی برسی ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button