آئینی ترمیم : مولانا فضل الرحمان حکومت کے ساتھ، اپوزیشن کے ساتھ یا ثالث

مولانا فضل الرحمان ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ حکومت نے ان سے آئینی ترمیم کیلئے حمایت مانگ رکھی ہے، جبکہ اپوزیشن اتحاد بالخصوص پی ٹی آئی نے مولانا فضل الرحمان سے آئینی ترمیم کی حمایت نہ کرنے کی درخواست کر رکھی ہے۔
رات گئے مولانا فضل الرحمان کا گھر ملاقاتوں کا گڑھ بن گیا۔ انہیں پی ٹی آئی اراکین طے شدہ ملاقات کے تحت ملنے آئے تو سامنے حکومتی وفد کی گاڑیاں دیکھ کر تھوڑی دیر کو پلٹے پھر لوٹ آئے۔ تاہم اپوزیشن وفد کے جانے کے بعد بھی حکومت ایک آخری راؤنڈ کھیلنے اور مولانا کو منانے آگئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مولانا حکومت کے ساتھ ہیں، اپوزیشن کے ساتھ یا پھر دونوں کے درمیان ثالث۔
رات گئے ہونے والی ملاقاتوں پر صحافی فہیم اختر ملک کا دعویٰ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو حکومتی وفد منانے میں ناکام، مولانا نے آئینی ترامیم کی حمایت سے انکار کردیا، حکومت کا ججز کی مدت میں توسیع کی ترمیم سے پیچھے نہ ہٹنے کا فیصلہ۔
صحافی زبیر علی خان نے اس حوالے سے خبر دی کہ عدالتی اصلاحات کا آئینی ترمیمی بل آج بھی قومی اسمبلی و سینیٹ میں پیش نہیں ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو پی ٹی آئی کو اعتماد میں لینے کا مشورہ دیا ہے۔ اور حکومت سے مسودہ مانگ لیا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی اراکین کی گرفتاری پر بلاول بھٹو کا پی ٹی آئی کو مشورہ
آج (اتوار) صبح 10 بجے آئینی ترمیمی بل مولانا فضل الرحمن کو پہنچا دیا جائے گا جس کے بعد اپوزیشن جماعتیں مشاورت کریں گی۔ مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اپوزیشن جو بھی فیصلہ کرے گی متفقہ طور پر کرے گی۔
حکومت کی تمام باتیں نہیں مانی جائیں گی تاہم پی ٹی آئی کی قیادت سے بھی لچک دکھانے کی درخواست کی ہے۔ فی الحال ایک اور دن کے لیے آئینی ترمیمی بل کا معاملہ لٹک گیا ہے۔
آج جاری ہونے والے قومی اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے میں بھی آئینی ترمیم نہیں ہے۔ یوں زبیر علی خان کی خبر کچھ حد تک درست معلوم ہوتی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ مولانا حکومت کے ساتھ نہیں اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ تاہم آئینی ترمیم کیلئے وہ پی ٹی آئی اور اپوزیشن کو منا کر اپنی مرضی کی اصلاحات کراسکتے ہیں۔ لیکن ایک بات پر وہ پی ٹی آئی سے متفق ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ کو کسی طور ایکسٹنشن نہیں دینا ہے۔