
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ ججز کا آزاد ہونا بہت ضروری ہے عدلیہ میں انٹیلیجنس ایجنسیز کی مداخلت کو روکنے کیلئے بہادر ججز کا ہونا ضروری ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے خط لکھنے والے 6 ججز میں سے پانچ ججز میرے لگائے ہوئے ہیں۔ وہ نیو یارک بار سے خطاب کر رہے تھے۔
اپنے خطاب کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ماضی اور حال کے مختلف فیصلوں پر اپنی رائے دی اور اپنے خلاف ہونے والی تنقید پر سیر حاصل جواب بھی دیئے۔
اپنے وکالتی کیریئر پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نو مارچ 2007 کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو جب آرمی ہاؤس میں نظر بند کر دیا گیا تو میرے ساتھی جسٹس یحیی آفریدی کے مشورے پر ہم نے حبسِ بیجا کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا اور ہمارے وکیل جسٹس منصور علی شاہ تھے۔رجسٹرار نے 12 اعتراضات لگائے اور پھر وہ درخواست کبھی نہیں لگی، تمام ججز کو معلوم گھا کہ اُنکے چیف جسٹس گھر میں نظر بند ہیں مگر کسی نے وہ درخواست نہیں سنی۔
وکلاء تحریک پر بات کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ وکلا تحریک کے بحال ہونے والے ججوں نے نوجوان نسل کو بہت مایوس کیا، یہ ججوں کی بحالی کی نہیں آئین کی بحالی کی تحریک تھی، میمو گیٹ کیس اِس قابل نہیں تھا کہ سپریم کورٹ اس پر سماعت کرتی ، وزرا اعظم کو تاحیات نا اہل کیا گیا اور عہدے سے برطرف کیا گیا، وکلا تحریک اس مقصد کے لئیے نہیں تھی۔
مزید پڑھیں:پی ٹی آئی پر پابندی کیلئے سپریم کورٹ میں بڑی گیم
بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نو اپریل 2022 کی رات کو عدالت کھولنے کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میڈیا پر مارشل لاء لگانے کی باتیں کی جا رہی تھیں، اور جب ایسی صورت حال ہو تو تمام عدالتوں کو رات کو کھل جانا چاہئیے۔
ایک موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج پراپیگنڈہ وہ کر رہے ہیں جنہوں نے اُس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ سے فائدہ اٹھایا تھا، اس وقت انہیں ملک کی کوئی ہائیکورٹ ریلیف نہیں دے رہی تھی۔
یوں تو جسٹس اطہر من اللہ کے اس خطاب کے کئی عوامل پر تنقید کی جارہی ہے لیکن خط لکھنے والے 6 ججز والی بات پر انہیںسوشل میڈیا پر ایک اور منظم کمپین کا سامنا ہے۔