
ایک طرف اپنے گن گانے والے صحافیوں کیلئے صدارتی ایوارڈ تو دوسری جانب تنقید کرنے والوں کی زندگی عذاب، صحافیوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں معمول بن گئیں۔
چند روز قبل صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کو ان کے گھر سے اغواء کیا گیا جنہیں ابھی تک بازیاب نہیں کرایا جاسکا اور آج رات صحافی وحید مراد کو ان کے گھر سے اغواء کر لیا گیا۔
صحافی وحید مراد کے اغواء کی کہانی:
صحافی وحید مراد کی اہلیہ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ” میرے خاوند وحید مراد کو کو رات کو 2 بجے نقاب پوش افراد اٹھا کر لے گئے ہیں۔وہ بار بار یہ پوچھ رہے تھے کہ اسکی بیوی کہاں ہے۔ میری والدہ بھی گھر تھیں۔ انکے ساتھ بھی بدتمیزی کی ہے۔ دھکا دیا ہے۔ والدہ دل کی مریضہ ہیں۔ میری والدہ کا فون ، وحید کے دونوں فون اور کچھ پیپرز لے گئے ہیں۔
صحافی اعزاز سید کے مطابق انہیں وحید مراد کی اہلیہ نے کال کر کے بتایا کہ اغواء کاروں نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ان کے شوہر کو باہر آنے کا کہا۔
وحید مراد کی اہلیہ کے مطابق وہ افراد یہ الزام لگا رہے تھے کہ ان کے شوہر افغانی ہیں جس پر وحید نے اپنا شناختی کارڈ دروازے کے نیچے سے انہیں پکڑایا۔
تاہم اس کے باوجود بھی وہ لوگ بذور طاقت ان کے گھر میں داخل ہوئے اور وحید کے ساتھ ان کا فون بھی لے گئی اور گھر کی تلاشی بھی لی۔
مزید پڑھیں: وہ شخصیت جسے صدارتی ایوارڈ دینے پر آج بھی عارف علوی فخر کرتے ہیں
صحافی وحید مراد کے ساتھ اس واقعہ کی کوریج کرنے والے ایک اور صحافی کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
صحافی ادیب یوسفزئی کے مطابق صحافی ثوبان افتخار راجہ واقعہ کی ویڈیو بنا رہے تھے جنہیں زد و کوب کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور گالیاں دی گئیں۔ اغواء کاروں نے ان سے موبائل فون بھی چھین لیا اور انکی بائیک کو بھی نقصان پہنچایا۔
پولیس رپورٹ درج کرنے سے انکاری، ہائیکورٹ سے بھی ریلیف نہ ملا:
صحافی اعظم خان نے رات گئے تھانے کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ صحافی واقعہ کی رپورٹ درج کرانے تھانہ کراچی کمپنی پہنچے لیکن پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا۔
دوسری جانب وکیل ایمان مزاری کے ساتھ کئی صحافی اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے ساتھی کی بازیابی کی درخواست لے کر آئے لیکن یہاں بھی انہیں فوری ریلیف نہ مل سکا۔
صحافی مطیع اللہ جان نے صحافیوں اور وکیل ایمان مزاری کے ساتھ تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا : ” ایک دن پہلے صحافی احمد نورانی کے دو بھائیوں کے اغوا پر حبسِ بیجا کی پٹیشن سماعت کے لیئے مقرر کروانے ہائی کورٹ سیکریٹری ٹو چیف جسٹس کے پاس آئے تھے اور آج ایک اور سینئیر صحافی وحید مراد کے اغوا پر آج ہی کی تاریخ میں درخواست مقرر کروانے اُسی جگہ موجود ہیں۔
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ آج کی درخواست پر عجیب اعتراض کیا گیا ہے۔ رجسٹرار آفس کا اعتراض ہے کہ حبس بیجا کی درخواستوں کے لئیے ماتحت عدلیہ کے پاس بھی جایا جا سکتا ہے۔