اہم خبریںپاکستان

جسٹس محمد علی مظہر اپنا دیا گیا فیصلہ ہی بھول گئے

اکثریتی فیصلہ دینے والے جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ہی فیصلے پر سوالات اٹھا کر مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ ریورس ہونے کے اشارے دے ڈالے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے مخصوص نشستوں کیس کی نظر ثانی اپیل میں اپنے دلائل مکمل کر لئے۔

جہاں فیصل صدیقی کو  اس کیس میں اپنا دفاع پیش کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا وہیں سپریم کورٹ میں ایک حیرت انگیز واقعہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب اکثریتی فیصلہ دینے والے جسٹس محمد علی مظہر خود ہی اپنا فیصلہ بھول گئے۔

ان واقعات نے ممکنہ طور پر پی ٹی آئی( سنی اتحاد کونسل) کو 12 جولائی کو ملنے والی مخصوص نشستیں ریورس ہونے کے اشارے دینے شروع کر دیئے ہیں۔

 

جسٹس محمد علی مظہر کیس سے لاعلم نکلے:

 

جسٹس محمد علی مظہر 12 جولائی کے اس اکثریتی فیصلے کا حصہ تھے جس میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

آج لائیو نشر ہونے والے سماعت کے دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ جو اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ہدایات کی گئیں وہ پوری ہوئیں؟

اس پر فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے جواب دیا کہ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہاتمام ممبران نے اپنے کوائف اور پارٹی وابستگی جمع کرائی تھی،سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں ناں کیا؟

اپنے دلائل جارے رکھتے ہوئے فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن یہاں آ کر دھرلے سے کہتا ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد بھی نہیں کریں گے اور نظر ثانی بھی کریں۔

اس دوران جسٹس محمد علی مظہر بولے الیکشن کمیشن نے 39 ممبران کو نوٹیفائی کیا تھا یہ نظر ثانی کیس تو بقیہ 40 نشستوں پر ہے۔

وکیل فیصل صدیقی اور جسٹس  امین الدین خان نے کہا نظر ثانی تمام 79 نشستوں کے خلاف ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا میں نے بار بار پوچھا ہے الیکشن کمیشن سے انہوں نے کہا 40 سیٹ پر نظر ثانی ہے، جس کے بعد جج صاحب نے الیکشن کمیشن حکام کو روسٹرم پر بلا لیا اور پوچھا بتائیں آپ نے پی ٹی آئی کے 39 ممبران کو نوٹیفائی کیا؟

ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا جی ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 39 ممبران کو پی ٹی آئی کا نوٹیفائی کر دیا تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھاآپ نے 39 ممبران کے تناسب سے مخصوص نشستیں دی ہیں؟ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن بولےہم 39 کی حد تک تو مخصوص نشستیں نہیں دے سکتے یہ تو مکمل کے تناسب سے باقاعدہ فارمولا ہوتا ہے۔

 

مزید پڑھیں: جب بھٹو کمزور عدلیہ کی وجہ سے پھانسی کے پھندے کو پہنچے

 

اکثریتی فیصلہ دینے والے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا اگر فارمولا ہوتا ہے تو باقی جماعتوں کو مخصوص نشستیں کیوں دیں؟ فیصلہ ہو لینے دیتے اور پھر سب کو ایک ساتھ مخصوص نشستیں دیتے۔

جسٹس محمد علی مظہر اس سے بھی لاعلم نکلے اور کہا نہیں باقی جماعتوں کو نہیں دی گئیں مخصوص نشستیں۔ جس پر الیکشن کمیشن نے کہا باقی تمام سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دے دی ہیں!

اس کے بعد بنچ کے سربراہ جسٹس حاجی امین الدین خان نے الیکشن کمیشن حکام کو کہا بیٹھ جائیں اب تو کیس چل رہا ہے اور فیصل صدیقی کو کہا دلائل جاری رکھیں۔

فیصل صدیقی نے کہایہ تو پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی ہے،سپریم کورٹ کے فیصلوں کا کوئی تو تقدس ہونا چاہئے۔

یوں اکثریتی فیصلہ دینے والے جج کا فیصلہ سے ہی لاعلم ہونا سوالوں کو جنم دینے لگا۔

 

جسٹس محمد مظہر اپنا ہی دیا گیا فیصلہ بھول گئے:

 

جسٹس مظہر اپنے ہی فیصلہ بھول گئے ۔  جسٹس محمد علی مظہر 12 جولائی 2024 کو ان اکثریتی ججز کا حصہ تھے، تاہم آج نظرثانی درخواست میں اپنے ہی فیصلے پر سوالات اٹھا دیئے۔

انہوں نے سوال اٹھا یا کہ "یہاں مسئلہ یہ ہے کہ آرٹیکل 187 کے تحت اس پارٹی کو ریلیف دیا جا سکتا ہے جو عدالت کے سامنے تھی ہی نہیں، کیا کوئی سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ایسی نظیر موجود ہے کہ جو فریق عدالت کے روبرو ہی نا ہو اسے ریلیف مل جائے؟”

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ؛ "جی سر نظیر موجود ہے اور آپ کے اپنے دو فیصلے ہیں،آپ خود ہی فیصلہ دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔”

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہو گئے۔ سنی اتحاد کونسل نے کیس میں اضافی دستاویزات بھی جمع کرا دیئے جس میں کمنشر راولپنڈی کے دھاندلی سے متعلق بیان کو بھی پہلی بار عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔

 

 

 

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button