
صحافی وحید مراد کو گزشتہ 26 مارچ کو سحری کے وقت تقریباً تین بجے ان کے گھر سے اغواء کیا گیا جس کے بعد ان کی کئی گھنٹوں کوئی خبر نہ ہوئی۔
اس کے بعد ان کے ساتھیوں نے جب اس واقعہ کی رپورٹ درج کرانے چاہی تو وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔
بالاآخر انہیں کئی گھنٹوں کے بعد اچانک عدالت پیش کر دیا گیا جہاں پتا چلا کہ ان پر کوئی ایف آئی اے کا کیس ہے۔
تاہم کورٹ رپورٹرز کے مطابق وحید مراد نے عدالت میں بیان دیا کہ انہیں رات گئے تین بجے گھر سے اغواء کیا گیا اور آنکھوں پر پٹی باندھی گئی ۔ اور صرف عدالت لانے سے بیس منٹ پہلے ان کی پٹی کھولی گئی اور ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا۔
بہر حال اس کیس میں عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے صحافی وحید مراد کو ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔
مزید پڑھیں: صحافی وحید مراد کا رات گئے اغواء، رہائی کیلئے ابتدائی کوششیں ناکام
اختر مینگل کی ٹویٹ پر صحافی وحید مراد کی گرفتاری:
صحافی وحید مراد اور ان کے وکلاء ہادی علی اور ایمان مزاری کو عدالت میں ہی ایف آئی آر کی کاپی مہیا کی گئی۔
اس ایف آئی آر میں جس تحریر کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے وحید مراد کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا وہ ان کی تحریر نہ تھی۔
یہ تحریر بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل کی تھی اور وحید مراد نے اس تحریر کے نیچے باقاعدہ طور پر سردار اختر مینگل کا نام بھی تحریر کیا تھا۔ اس کے باوجود ان کو اس مقدمہ میں ڈالا گیا جو کہ ایک نا کردہ گناہ کی سزا ٹھہری۔
اختر مینگل کے معذرت:
سردار اختر مینگل کا اپنی پوسٹ کا مواد شیئر کرنے پر گرفتار ہونے والے صحافی سے دلی معذرت کر لی۔
اپنے ایک ٹویٹ میں اختر مینگل نے لکھا کہ : "وحید مراد صاحب، دل سے معذرت کہ میری بے ضرر سی ٹویٹ نے آپ کو ایسا وائرل کر دیا کہ حکومت نے فوراً “offline” کر دیا! بیچارہ صرف شیئر کر رہا تھا، کوئی ریاستی راز تو نہیں بیچ رہا تھا۔ اب لگتا ہے سوشل میڈیا پر لکھنے سے پہلے وضو بھی کرنا پڑے گا — کیونکہ پتا نہیں کب بات “Retweet” سے “Repeat after me” ہو جائے! بس اتنا کہوں گا: آپ کو تو صرف پوسٹ پسند آئی تھی، حکومت کو لگا انقلاب آ گیا ہے! جمہوریت ہے بھائی، بس “Like” دباؤ، لیکن آواز نیچی رکھو”