
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی حالیہ آڈٹ رپورٹ پنجاب میں 10 کھرب سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف سامنے آیا ہے جس نے کرپش کو اپنی ریڈ لائن بتانے والی مریم نواز کی حکومت پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیئے ہیں۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی اس رپورٹ کو باقاعدہ خبر کی صورت میں نجی نیوز گروپ سے وابستہ سینئر صحافی انصار عباسی کی جانب سے پیش کی گئی جس کے بعد اس پر بھانت بھانت کے تبصرے جاری ہیں۔
10 کھرب سے زائد کی ان مالی بے ضابطگیوں میں غلط خریداریاں، رقم کا غلط استعمال، کنسولیڈیٹڈ فنڈز کی وصولیوں کو کمرشل بینکوں میں غیر مجاز طور پر شامل کرنے سمیت دیگر سنگین نوعیت کے الزامات شامل ہیں۔
آڈٹ رپورٹ پنجاب کی بے ضابطگیوں کی تفصیلات:
آڈٹ رپورٹ میں کئی اقسام کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا جنہیں آسان طور پر سمجھنے کیلئے مخلتف حصوں میں تقسیم کیا جارہا ہے،
فنڈز کو غیر مجاز طور پر کمرشل بینکوں میں رکھنا
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں سب سے نمایاں بے ضابطگی کے ایسے 12 کیسز سامنے آئے جس میں خود مختار اداروں نے صوبائی مشترکہ فنڈ سے حاصل شدہ رقوم کو کمرشل بینکوں اور بغیر منافع والے اکاؤنٹس میں غیر قانونی طور پر رکھا۔ یہ رقم تقریبا 998 ارب روپے بنتی ہے جو کہ ایک خطیر رقم ہے۔
مالی خوردبرد اور فراڈ:
اس تہلکہ خیز رپورٹ میں 1۔3 ارب روپے کے ایسے 14 کیسز کی نشاندہی ہوئی جن میں مالی فراڈ یا خورد برد برتی گئی۔
ان فراڈ پر مبنی عوامل کی وجہ سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان نے پنجاب حکومت کی قابلیت پر سوال اٹھا دیئے ہیں ۔
غیر مجاز ادائیگیاں اور رقم کی وصولی نہ ہو پانا:
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی اس رپورٹ میں 4۔25 ارب روپے کے اس 50 کیسز سامنے آئے جس میں غیر مجاز ادائیگیاں کی گئیں یا کچھ رقوم جو وصول کی جانا تھیں، وصول نہ ہو سکیں۔
ان اعداد و شمار نے حکومت پالیسیوں میں نقائص سے قومی خزانے کو ڈبل نقصان پہنچنے کے عمل کو اس حد تک سامنےلا کر رکھ دیا کہ ایک طرف غیر مجاز ادائیگیاں اور دوسری طرف وصولیوں کا نہ ہونا۔
مالی بد انتظامی:
سرکاری وسائل کی مؤثر نگرانی میں کوتاہی یا عملے کی نااہلی کی وجہ سے 21 ایسے کیسز سامنے آئے جن سے قومی خزانے کو 10 ارب سے زائد کا نقصان پہنچا۔
آڈٹ رپورٹ میں غلط خریداری سے قومی خزانے کو نقصان پہنچنے کے 45 ایسے کیسز سامنے آئے جس میں 43 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں ای کامرس بزنس تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا
دیگر مالی بے ضابطگیوں میں ہیومن ریسورس سے متعلق بے ضابطگیوں کے 24 کیسز سامنے آئے جس سے قومی خزانے کو 8 ارب سے زائد کا نقصان ہوا۔
اسی طرح کارکردگی سے متعلق مالی بے ضابطگیوں کے 7 کیسز میں مجموعی طور پر قومی خزانے کو 6۔3 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔
پنجاب حکومت کا رد عمل:
یاد رہے کہ یہ آڈٹ مالی سال 2023-24 سے متعلق تھا جس میں تقریباً 8 ماہ محسن نقوی کی نگران حکومت اور 4 ماہ مریم نواز حکومت کے تھے۔
آڈٹ رپورٹ پنجاب سامنے آنے کے بعد اپوزیشن اور صحافیوں نے تنقید کی راہ لی تو حکومتی دفاع کو عظمیٰ بخاری آ پہنچیں۔
مونس الہیٰ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ "آڈیٹر جنرل نے میڈم تھیف منسٹر کے ایک سالہ دور میں 10 کھرب روپے سے زیادہ کی مالی بے ضابطگیاں پکڑ لیں۔ سنگین مالی فراڈ، بوگس خریداریاں، غلط ادائیگیاں سامنے آ گئیں۔”
انہیں جواب دینے کو میدان میں آتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے لکھا کہ ” مونس الہی نے اپنے والد صاحب کے دور کی بے ضابطگیاں پکڑ لیں جسکا حصہ وہ خود رہے اور پھرنو ٹوں کے بیگ بھر کے بھگوڑا بن گیا۔
صحافی احمد وڑائچ نے عظمیٰ بخاری کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ چودھری پرویز الہیٰ کی حکومت جنوری 2023 میں ختم ہوئی۔ مالی سال 24-2023 کا آغاز، یکم جولائی 2023 سے ہوا تھا، جو 30 جون 2024 کو ختم ہوا۔ اس حساب سے 8 ماہ سید محسن نقوی اور 4 ماہ مریم نواز حکومت۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ کو مالی سال کی الف ب کا غالباً علم نہیں۔”
صحافی قسمت خان زمری نے بھی عظمیٰ بخاری کو جواب دیا کہ” مالی سال2023-24ء کا آغاز یکم جولائی2023ء سے ہوا اورخاتمہ30جون2024ء کو ہوا۔
اس دوران محسن نقوی نگران وزیراعلیٰ تھے،جو25فروری2024ء تک رہے۔26فروری2024ء سے مریم نوازوزیراعلیٰ بنیں۔یعنی اس عرصے میں صرف محسن نقوی اور مریم نوازنے حکومت کی۔اس مالی سال سے پرویزالہی کا کوئی لینا دینا نہیں۔”