اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری اور انرولمنٹ جامعہ کراچی سے منسوخ کر دی گئی ہے۔ یہ ڈرامائی تبدیلی اس سنڈیکیٹ میٹنگ کے بعد ہوئی جس کا ذکر اسی سنڈیکیٹ کے ایک ممبر نے مبینہ اغواء کے بعد ایک بیان میں کیا تھا۔
جامعہ کراچی سے ڈاکٹر ریاض احمد کی ویڈیوز گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ جامعہ کراچی پر کافی دنوں سے دباؤ تھا اور اس دباؤ میں حکومت سندھ پیش پیش تھی۔
سندھ میں اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اس حکومت کے زیر نگرانی ایک یونیورسٹی پر دباؤ ڈالنا ایک شرمناک عمل ہے۔ تاہم کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری ایک دور میں پیپلز پارٹی کےجیالے رہ چکے ہیں جبکہ انہوں نے ن لیگ کے دور حکومت میں بھی ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جیسے اہم عہدوں پر بھی فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔
اس حوالے سے صحافی حسنات ملک نے انکشاف کیا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری ضیاء الحق دور میں مزاحمت کااستعارہ تھے۔ انہوں نے اس وقت ملٹری کورٹس سے سزا بھی پائی جبکہ ایک بار وہ محترمہ بینظیر بھٹو کیلئے جیل بھی گئے۔
وہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت 2011 سے لیکر 2013 تک ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان جبکہ ن لیگ کے دور حکومت میں انہیں 2018 میں ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد بھی تعینات کیا گیا۔ حسنات ملک کے مطابق احسن اقبال کے کیسز میں وہ ان کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: جسٹس طارق محمود جہانگیری بطور جج نااہل
جسٹس طارق محمود جہانگیری کے حوالے سے یہ معلومات بھی قابل غورہے کہ پی ٹی آئی انکی بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ تعیناتی کے بھی خلاف تھی۔
صحافی ثاقب بشیر کا کہنا ہے کہ جسٹس جہانگیری ان ججز میں سے ہیں جو کیس کی فائل پڑھ کر آتے ہیں اور چند ہی سوالوں سے کیس کے نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں۔
ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ ٹیریان وائٹ کیس اور بعدازاں الیکشن ٹریبیونل کی کارروائیوں کی وجہ سے جسٹس طارق محمود کے خلاف یہ محاذ کھولا گیا۔
یاد رہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف جعلی ڈگری کا ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع ہے جبکہ ان کے خلاف بدنیتی پر مبنی کمپین کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت بھی 19 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 7 رکنی فل کورٹ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر ہے۔