آرٹیکلزاویہ

بہن بیٹیوں کو ایسے عزت دی جاتی

ایک ایسے وقت میں جب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے چادر چار دیواری کا تقدس بھول گئے ہیں اور کسی بھی پی ٹی آئی رہنما کا مال اور عزت محفوظ نہیں، ایسے میں پشاور ہائیکورٹ کےجج محمد ابراہیم خان نے ایک مثال قائم کر کے بتا دیا ہے کہ بہن ، بیٹیوں کے ساتھ کیسے پیش آیا جاتا ہے۔
گزشتہ روز پی ٹی آئی رہنما زرتاج گل حفاظتی ضمانت لینے پشاور ہائیکورٹ پہنچیں تو انہیں گرفتار کرنے کیلئے اتنی بھاری تعداد میں پولیس امڈ آئی کے محسوس ہوتا تھا کہ کسی بڑے دہشت گرد کی گرفتاری مطلوب ہو۔
تاہم چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان کے اسلام آباد میں ہونےکی وجہ سے دن بھر عدالت میں رہنے کے باوجود بھی زرتاج گل حفاظتی ضمانت حاصل نہ کرسکیں۔ ایسے میں انہوں نے رات عدالت کے احاطہ میں ہی گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔
جسٹس محمد ابراہیم خان نے پریشان کن صورتحال کے پیش نظر نہ صرف اسلام آباد سے فوری واپسی کی بلکہ انہوں نے رات کے وقت عدالت بھی لگا لی۔جسٹس محمد ابراہیم خان نے بیٹی کا لقب دے کر زرتاج گل کے حوالے سے بیان دیا کہ بیٹی کو کھانا کھلاؤ پھر سماعت کریں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کافی غصے میں دکھائی دیئے۔ انہوں نے عدالتی گیٹ پروکلاء اور دیگر افسران سے بدتمیزی پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: کیا سپریم کورٹ سے بلے کا نشان واپس ملے گا؟

ایک موقع پر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ اگر میں نہ آ پاتا تو کیا یہ ساری رات یہیں گزارتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رات کے 2 بجے بھی کسی کو ضرورت پڑے تو پہنچوں گا۔ اگر کسی کو انصاف نہیں دے سکتا تو مجھے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
عدالت نے ضمانت منظور کی تو اس موقع پر زرتاج گل کا کہنا تھا کہ سر آپ مجھے ضمانت دے بھی دیں تو یہ مجھے گرفتار پھر بھی کر لیں گے۔ جس پر جسٹس محمد ابراہیم خان نے انہیں ایک بار پھر انہیں بیٹی کہہ کر پکارا اور کہا کہ کہ میری بیٹی یہ خیبر پختونخوا ہے، کوئی پولیس آپکو ہاتھ نہیں لگائی گے.چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ یہ میری عدالت ہے، یہ میرا فیصلہ ہے، کسی نے ہاتھ تک لگایا تو میں جانوں اور پولیس جانے۔
عدالت نے پشاور پولیس کے اعلیٰ افسران کو طلب کیا جس پر سی سی پی نے عدالت میں بیان دیا کہ زرتاج گل انہیں کسی مقدمے میں مطلوب نہیں۔ یوں زرتاج گل کو عدالت سے واپسی پر کسی نے نہ روکا اور انہیں جانے دیا گیا۔
یوں ایک ایسے دور میں جب بہن بیٹیوں کی عزت و حرمت کا پاس نہیں رکھا جارہا، جہاں عثمان ڈار کی والدہ سے آئے روز بد سلوکی ہو، جمشید دستی کی بیوی پر دست درازی ہو، یا جیل میں قید خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، وہاں بہن بیٹیوں کے حرمت کا خیال رکھنے والے جج نے بتا دیا کہ ایسی عزت دی جاتی ہے۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب سپریم کورٹ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کچھ سننے کو تیار نہیں ، جسٹس محمد ابراہیم خان نے ثابت کیا کہ بہن بیٹیوں کو ایسے عزت دی جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button