
کربلا کے واقعے کو چاہیے جتنی صدیاں بیت جائیں اس سے حاصل ہونے والے اسباق ہر دور کیلئے امر ہیں۔ ہر دور کا انسان ان اسباق سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔یہاں اس واقعے سے حاصل ہونے والے اسباق بیان کرنے سے پہلے اپنی کم علمی کا اقرار کر لیا جائے تو بہت بہتر ہوگا۔ کیونکہ ایک انسان جس حد تک بھی اس واقعہ سے اسباق نکال لے ، اس واقعے کو دوبارہ سے ذہن میں دہرانے سے نیا سبق حاصل ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ہر دور کے اہل علم اس سے کچھ ایسے اسباق نکالتے ہیں جو اس واقعہ کی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیتا ہے۔
تاہم اگر چند اہم اسباق کی بات کر لی جائے تو پہلا سبق تو یہ ہے کہ باطل کے سامنے حق کبھی سرنگوں نہیں ہوسکتا۔ باطل شاید وقتی طور پر اپنی فتح کو مکا لہرا دے لیکن تاریخ سے باطل مکمل طور پر مٹ جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ جملہ زبان زد عام ہے کہ : یزید تھا، حسین ہے۔ یہاں سے ایک سبق ہمیں یہ بھی ملتے ہے کہ ہمیں اپنی نسلوں کو اس واقعہ سے مکمل تفصیلات کے ساتھ روشناس کرانا چاہیے تا کہ وہ بھی حق کے سامنے ڈٹ کرکھڑے ہونے کا سبق مکمل طور پر ذہن نشین کر لے۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے کہ
گھٹنے نہ ٹیک دے کوئی باطل کے سامنے
بچوں کو سناتے رہو قصہ حسین کا
صرف خود حق پر ڈٹ جانا ہی کافی نہیں۔ اگر کہیں حق و باطل کا سامنے ہوتو حق کا ساتھ دینے کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے پھر چاہے اس میں مال اولاد میں قربان ہو جائے۔
مزیدپڑھیں: انڈین پارلیمنٹ دورود وسلام سے گونج اٹھی
کربلا کا ایک اور اہم سبق نماز کی ترویج ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سجدے کی حالت میں اپنا سر کٹا لیا لیکن نماز کو اہمیت دی۔آج ہم اس واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ نماز کی ترویج اس کا ایک اہم سبق تھا جسے آج ہم بھلا بیٹھے ہیں۔
اس کے علاوہ مصیبت میں صبر کرنے کا سبق بھی اس واقعے کا اہم ماحصل ہے۔ رشتہ داروں اور بچوں کو آنکھوں کے سامنے ذبح ہوتا دیکھ کر صبر کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن اگر کربلا سے سیکھ کر فلاح پانی ہے مصیبت میں صبر کریں اور اللہ کے انعام کو پالیں۔
کسی شاعر نے کیا خوب الفاظ کہے ہیں کہ
اے زمیں! خوش ہو کہ تیری زیب و زینت ہے حسین
تیرے سناٹے میں محوِ خوابِ راحت ہے حسین
جو دہکتی آگ کے شعلوں پہ سویا، وہ حسین
جس نے اپنے خون سے عالم کو دھویا ، وہ حسین
جو جواں بیٹے کی میت پر نہ رویا، وہ حسین
جس نے سب کچھ کھو کے، پھر بھی کچھ نہ کھویا، وہ حسین
(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)