چیف جسٹس منصور علی شاہ

26 ویں آئینی ترمیم کے تحت اب پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے جس نے تین سینئر سپریم کورٹ ججز میں سے کسی ایک کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے اس پارٹی کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن پھر بھی حکومت کو اس کمیٹی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے، اور وہ اپنی مرضی سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس بنا سکتے ہیں۔ لیکن صحافی اسد علی طور کہتے ہیں کہ حکومت ایسا کرنے کی بجائے چیف جسٹس منصورعلی شاہ کو ہی بنائے گی۔
وضاحت دیتے ہوئے اسد طور کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے گزٹ کے مطابق حکومت سینئر تین ججز میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس بنا سکتی ہے۔ اگر وہ جج معذرت کر لیں تو بقیہ دو ججز میں سے کسی ایک کو چیف بنایا جائے گا۔
اسد علی طور کہتے ہیں کہ حکومت جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف بناتی ہے اور اگر وہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو حکومت کے پاس دو آپشن بچیں گے، جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ۔
تاہم اسد طور کا تجزیہ ہے کہ حکومت کسی طور جسٹس منیب کی طرف نہیں جائے گی اورجسٹس منصور کا ہی نوٹیفکیشن ہوگا۔
مزید پڑھیں:26 ویں آئینی ترمیم، عدلیہ کے پر کاٹ دیئے گئے
تاہم اسد طور کا کہنا ہے کہ اس حزیمت سے بچنے کیلئے کہ اگر جسٹس یحییٰ آفریدی انکار کر دیتے ہیں اور بعدازاں جسٹس منصور کو ہی چیف بنانا پڑے، ممکن ہے کہ حکومت جسٹس منصور کا پہلے ہی نوٹیفکیشن جاری کردے اور یوں وہ چیف جسٹس بن جائیں گے۔
اسد طور کہتے ہیں کہ جسٹس منصور کا نام آج ہی بطور چیف پارلیمانی کمیٹی بھیج دے گی اور حکومت کہے گی کہ دیکھیں ہم پر ایسے ہی الزام عائد کیا جارہا تھا۔
یاد رہے کہ آئینی ترمیم کے مطابق پارلیمانی کمیٹی پہلے تین سینئر ججز میں سے کسی ایک کو چیف بنا سکے گی۔ اس کیلئے نام زیر گردش ہے وہ جسٹس یحییٰ آفریدی کا ہے۔
لیکن اگر جسٹس یحییٰ آفریدی یہ عہدہ قبول کرتے ہیں تو وہ تین سال بعد ریٹائر ہو جائیں گے ۔ اگر یہ عہدہ وہ اپنے پاس نہیں رکھتے تو ان کی مدت ملازمت 5 سال ہے اور وہ باقی رہے گی۔