نمبرز پورے نہ ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کی ڈبل گیم شروع

جمہوریت جمہوریت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی ہر دور میں وکٹ کے دونوں اطراف کھیلتی آئی ہے۔ یہ طاقتور حلقوں یعنی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی تعلقات استوار رکھتی ہے جبکہ دوسری طرف پارلیمانی سیاست میں بھی جمہوریت جمہوریت کرتے نہیں تھکتی۔
زیادہ دور نہیں یہ آج ہی کی بات ہے کہ قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران پارٹی کے سینئر رہنما نوید قمر نے بیان دیا کہ میڈیا پر گردش کرنے والا آئینی ترمیم کا ڈرافٹ متفقہ نہیں ہے اور ہمیں اس کی کئی شقوں پر اعتراض ہے۔
حالانکہ کے گزشتہ روز ہی اس حوالے سے جب آئینی ترمیم کیلئے ہاتھ پاؤں مارے جارہے تھے اور نمبر گیم پوری کی جارہی تھی تب پی پی پی نے ایسا کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ اس کے برعکس پی پی پی نمبر گیم پوری کرتی نظر آئی۔
آج اس ترمیم کے مؤخر ہونے کے بعد سوال سامنے آت اہے کہ اگر رات کو حکومت کسی نہ کسی طرح نمبر گیم پوری کر لیتی تو کیا پیپلز پارٹی آئینی ترامیم کی منظوری میں رخنہ ڈالتی؟ کیا یہ ڈبل گیم نہیںہے؟
مزیدپڑھیں:وہ کون ہے جو میڈیا کو عمران خان پر بات کرنے کا کہہ رہا ہے
نوید قمرکے بیان پر رائے دیتے ہوئے عمران ریاض خان کاکہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نمبرز پورے نہ ہونے پر دوبارہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے۔ چند شقوں پر ہمیں بھی اعتراض تھا۔ اب کوئی فائدہ نہیں آپ بے نقاب بھی ہو گئے اور فل الحال کاروائی بھی نہیں ڈالی جا سکی۔
اب جبکہ وکلاء تحریک کا اعلان کر چکے ہیں اور ان آئینی ترامیم کو ہر جگہ تنقید کا سامنا ہے تو پیپلز پارٹی کا یہ کم بیک کسی طور اب گزشتہ دو روز ہونے والی سرگرمیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔
2022 میں عمران خان نے جب اسمبلی توڑی تو پیپلز پارٹی کے وکلاء رہنما آئین پر حملے کی رٹ لگائے عدالتوں میں پہنچ گئے جبکہ اس کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک سال نہ ہوئے اور عام انتخابات کیلئے بھی 90 دن سے زائد گزر گئے تو پیپلز پارٹی خاموش رہی۔
پیپلز پارٹی اب آئینی ترامیم نہ ہو سکنے کے بعد وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ہر وقت کا دوغلا رویہ جموریت جمہوریت کے نعروں کا کسی طور متحمل نہیں ہوسکتا۔