
سعودی دارلحکومت ریاض میں ہفتے کے روز عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کا منععقد ہوا جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس میں اسرائیل کے دفاع کے نام پر شہری آبادی کو نشانے بنانے کے وحشیانہ منصوبے کو بلاجوازقرار دے کر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تاہم اس اہم موقع پر بھی مسلم ممالک کے درمیان ہم آہنگی نظر نہ آئی اور کوئی جامع حکمت عملی پر اتفاق نہ ہوا۔
عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس 7 اکتوبر کو شروع ہونے والے ان خونریز حملوں کی بعد پہلی پیشرفت ہے۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں 11,000 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری اور زیادہ تر بچے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی حکام کے مطابق اسرائیل کے تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، اور 239 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: اسرائیل روزانہ چار گھنٹے جنگ بندی پر آمادہ
امدادی گروپوں نے جنگ بندی کے معاملے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں خوراک پانی اور ادویات کی شدید کمی ہے جس سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
عرب لیگ اور او آئی سی کا اجلاس الگ الگ ہونا تھے۔ تاہم عرب سفارت کاروں نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ اجلاسوں کو ضم کرنے کا فیصلہ عرب لیگ کے وفود کے حتمی بیان پر کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکامی کے بعد کیا گیا۔
سفارت کاروں نے بتایا کہ الجزائر اور لبنان سمیت کچھ مسلم ممالک نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو تیل کی سپلائی روکنے کے ساتھ ساتھ عرب لیگ کے کچھ ممالک کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دے کر غزہ میں ہونے والی تباہی کا جواب دینے کی تجویز پیش کی۔
تاہم، کم از کم تین ممالک بشمول متحدہ عرب امارات اور بحرین، جنہوں نے 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا تھا اس تجویز کو یکسر مسترد کردیا۔
ملاقات سے قبل، فلسطینی گروپ اسلامی جہاد نے عرب رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس سے کچھ باہر نکلنے کی امید ہی نہیں ہے۔
گروپ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد الہندی نے بیروت میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ "ہم ایسی میٹنگوں سے امیدیں نہیں لگا رہے ہیں، کیونکہ ہم نے ان کے نتائج کئی سالوں سے دیکھے ہیں۔”
"حقیقت یہ ہے کہ یہ کانفرنس 35 دن (جنگ) کے بعد منعقد کی جائے گی، اس کے نتائج کی طرف اشارہ ہے”