ہاتھ سے لکھنے سے یادداشت کیسے بڑھتی ہے؟
بازار میں ایک انکل کو طعنہ دیتے سنا کہ کچھ عرصے بعد ایسی نسل آئے گی جو الف ب نہیں لکھ پائے گی کیونکہ انہیں ہاتھ سے لکھنا ہی بھولتا جا رہا ہے۔

آج کل کمرہ جماعت میں موبائل فون کا استعمال عام ہو گیا ہے۔ ادھر استاد نے وائٹ بورڈ پر پورا لیکچر لکھا اور ادھر کلاس کے کسی منچلے نے تصویر کھینچی اور کلاس کے واٹس ایپ گروپ میں ڈال دی۔
ہمارے ایک استاد اس پر کہا کرتے تھے کہ ایسا کرنے سے موبائل عالم بن رہے ہیں اور تم لوگ جاہل۔ جبکہ بازار میں ایک انکل کو طعنہ دیتے سنا کہ کچھ عرصے بعد ایسی نسل آئے گی جو الف ب نہیں لکھ پائے گی کیونکہ انہیں ہاتھ سے لکھنا ہی بھولتا جا رہا ہے۔
ڈیجیٹل آلات میں دن بدن ترقی نے تعلیمی دنیا میں بھی بہت کچھ بدل ڈالا ہے۔ جہاں یہاں بہت سے کام آسان ہو گئے ہیں وہیں بہت سی تخلیقی صلاحیتیں ماند بھی پڑتی جارہی ہیں۔ ان میں سے ایک رحجان ہاتھ سے لکھنے کی بجائے ٹائپنگ کا بڑھتا ہوا رحجان ہے۔
ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے ہاتھ سے لکھنے میں کیا حکمت ہے؟
دنیا بھر میں اب سمارٹ فون عام ہو چکا ہے جہاں آپ آسانی سے ٹائپ کر کے مطلوبہ کام کر سکتے ہیں۔
اگر کوئی ایسی اسائنمنٹ آ جائے جس کیلئے بڑی سکرین درکار ہو تو لیپ ٹاپ پر ٹائپ کر کے آپ باآسانی اپنا کام مکمل کر سکتے ہیں۔
اگر آپ ٹائپ کرنے کو بھی مشکل سمجھتے ہیں تو آپ کیلئے کام اور بھی آسان ہو سکتا ہے جس میں آپ وائس ٹائپنگ فیچر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آپ دنیا کی کوئی بھی زبان بولتے ہیں، گوگل کی بورڈ کا وائس ٹائپنگ فیچر آپکا یہ مسئلہ حل کردے گا۔
کئی ترقی یافتہ ممالک میں بچے کو چھوٹی جماعتوں سے ہی کمپیوٹر کے سپرد کر دیا جاتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں بھی اب ہاتھ سے لکھنے کا عمل ختم ہوتا جا رہا ہے۔
تاہم اب نئی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ہاتھ سے لکھنے کی وجہ سے دماغ تیز کام کرتا ہے خصوصی طور پر وہ حصہ جو کہ یادداشت سے جڑا ہے۔
ہمارے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں جس میں بایاں حصہ حرکات و سکنات کوکنٹرول کرتا ہے جبکہ بایاں حصہ تخلیقی صلاحیتوں کو کنٹرول کرتا ہے۔
مزید پڑھیں:ایلون مسک کی ٹیکنالوجی نے 8 سال سے مفلوج نوجوان کی زندگی کیسے بدلی
اس حوالے سے ماہر نفسیات کاکہنا ہے کہ ٹائپ کرنے کے دوران ہمارے ذہن کا صرف بایاں حصہ ہی کام کر رہا ہوتا ہے کیونکہ ہمیں پتا ہوتا ہے کہ صرف کی بورڈ کے بٹن چھونے سے ہم الفاظ کو سکرین پر پائیں گے۔
اس کے برعکس جب ہم ہاتھ سےلکھتے ہیں تو ہم حروف و الفاظ کی بناوٹ پر بھی توجہ دیتے ہیں جس سے دماغ کا تخلیقی حصہ یعنی کہ دایاں حصہ بھی کام کرتا ہے جس سے یادداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس ریسرچ کو ثابت کرنے کیلئے طلبہ کے دوسیٹ لیئے گئے ۔ ایک کو ہاتھ سے لکھنے کیلئے کہا گیا جبکہ دوسرے کو ٹائپنگ ٹاسک دیا گیا۔
اس دوران دونوں طلباء کےدماغ کے سکین لیئے گئے تو ریسرچر نے جانا کے ہاتھ سے لکھنے والوں کے ذہن میں پیدا ہونے والی برقی لہریں ٹائپنگ کرنے والے سے زیادہ متحرک تھیں۔
اختتامیہ:
آپ آج یہ شکوہ سنتے ہیں کہ نئی نسل کا توجہ اور یاداشت کا دورانیہ کم ہوتا جا رہا ہے اس کی بڑی وجہ ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔
جہاں ٹیکنالوجی آپ کے زندگی کے کئی کام آسان بنا رہی، وہیں یہ آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی چھین رہی ہے۔
آپ چاہے غیر ضروری کاموں کیلئے ٹولز کا سہارا لیں، موبائل استعمال کریں۔ لیکن جس چیز کو توجہ سے سمجھنا ہو یا یاداشت میں لمبے عرصے کیلئے سٹو ر کرنا ہو اس کیلئے ہاتھ سے لکھنے کے فارمولے پر عمل کریں۔