اہم خبریںپاکستان

جامعہ پنجاب کے غیر قانونی مقیم طلباء کے خلاف ایکشن پر لوگ خفا کیوں؟

ان غیر قانونی افراد کو طلباء تنظیموں کی جانب سے ہاسٹل میں رہائش مہیا کی جاتی ہے اور اس کے بدلے ان سے احتجاج، ریلیوں اور لڑائی جھگڑوں میں شرکت کیلئے مدد طلب کی جاتی ہے۔

پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک جامعہ پنجاب ہے جو کہ اپنے وسیع و عریض رقبے، درجنوں ڈگری پروگرامز اور بہترین تعلیمی ماحول کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔

تاہم جامعہ پنجاب میں آئے روز لڑائی جھگڑے چلتے رہتے ہیں جس سے نہ صرف تعلیمی عمل متاثر ہوتا ہے بلکہ دنیا میں بھی پاکستان کا ایک برا نقشہ جاتا ہے کیونکہ اس یونیورسٹی میں دنیا کے کئی ممالک کے طلباء زیر تعلیم ہیں۔

ان لڑائی جھگڑوں کی ایک بڑی وجہ یہاں سیاسی و مذہبی جماعتوں کی تنظیمیں ہیں جو اپنے اثر و رسوخ کی نمائش کیلئے ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔

ان لڑائی جھگڑوں میں لڑنے والے مختلف تنظیموں کے پاس جو سب سے بڑی سپورٹ ہوتی ہے وہ یونیورسٹی ہاسٹل میں مقیم غیر قانونی طلباء و دیگر افراد ہیں۔

جامعہ پنجاب میں ان  افراد کو طلباء تنظیموں کی جانب سے ہاسٹل میں رہائش مہیا کی جاتی ہے اور اس کے بدلے ان سے احتجاج، ریلیوں اور لڑائی جھگڑوں میں شرکت کیلئے مدد طلب کی جاتی ہے۔

جامعہ پنجاب میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کا معاملہ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اب طلباء کے علاوہ لوگوں نے اپنے رشتہ داروں تک کو یونیورسٹی ہاسٹلز میں بسا لیا تھا اور انتظامیہ اس پر کوئی بھی ایکشن لینے سے قاصر تھی۔

ادھر یونیورسٹی ایکشن لینے کا ارادہ کرتی تو دوسری طرف طلباء تنظیمیں احتجاج کی کال دے دیتیں جس سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتیں۔ یوں سالہا سال سے یہ مسئلہ جوں کا توں رہا۔

اب قانونی طور پر یونیورسٹی ہاسٹل میں رہائش کے خواہش مند طلباء کو جگہ ہی نہ ملتی تھی۔

 

مزید پڑھیں: شہرِ لاہور اب اقتصادی تعاون تنظیم کا سیاحتی دارالحکومت

 

جامعہ پنجاب میں گرینڈ آپریشن، لوگ خفا کیوں ہو رہے؟

اب کی بار یونیورسٹی میں بڑی پیمانے پر آپریشن کیا گیا اور یہ آپریشن ایک ایسے وقت میں کرنے کے کا فیصلہ کیا گیا جب یونیورسٹی میں مقیم قانونی و غیرقانونی طلباء عید کیلئے اپنے گھروں میں موجود تھے۔

عید کے بعد جب طلباء واپس پہنچے تو غیرقانونی طور پر مقیم طلباء کو دوبارہ ہاسٹلز میں انٹری کی اجازت نہ ملی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ 20 سال میں پہلی مرتبہ کلین اپ آپریشن ہوا ہے جس میں غیرقانونی افراد کی ہاسٹل تک رسائی کو محدود کیا گیا ہے۔

ایک طرف تو یہ فیصلے کو بہت پسند کیا جارہا ہے تو وہیں دوسری طرف طلباء اور یونیورسٹی میں کیفے چلانے والے افراد اداس بھی دکھائی دیتے ہیں۔
غیر قانونی طور پر مقیم طلباء و دیگر افراد کو ہاسٹل کی میس تک تو رسائی نہیں تھی، اس لئے انہیں یونیورسٹی کے اندر موجود کیفے اور ڈھابوں پر کھانے کیلے آنا پڑتا تھا۔

اسی طرح یونیورسٹی میں کھیل کے میدانوں اور دیگر مقامات پر رش سا لگا رہتا تھا جو یونیورسٹی کا حسن سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب طلباء ان مقامات کے ویران ہونے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ غیرقانونی طور پر مقیم افراد ہی یونیورسٹی کا حسن تھے۔

یہی نہیں یونیورسٹی کے کیفے وغیرہ چلانے والے بھی اس فیصلے سے ناخوش دکھائی دیتےہیں۔

صحافی ادیب یوسفزئی، جو اسی یونیورسٹی کے طالبعلم بھی رہے ہیں، لکھتےہیں کہ انہیں ایک کینٹین کے ویٹر نے کہا کہ "جامعہ پنجاب کے ہاسٹلز میں غیر قانونی طور پر مقیم طلباء جامعہ کا حسن تھے”۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان کیلئے اپنی یونیورسٹی کا ہاسٹل چھوڑنا ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے ۔ لیکن ان جذبات کو کسی غیرقانونی کام کیلئے بطورِ جواز تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button