پاکستانسیاست

میاں محمد نواز شریف بڑی مشکل میں پھنس گئے

لندن سے چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بننے کا عزم لیئے اور ایک کے بعد ایک ڈیل کرنے والے میاں محمد نواز شریف ایک نئی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ 9 مئی کے واقعے کے بعد پی ٹی آئی پر کانٹا لگنے کے بعد قائد مسلم لیگ ن کا خیال تھا کہ ان کی پارٹی کو دو تہائی اکثریت لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
سب سے بڑی سیاسی حریف پی ٹی آئی کہیں میدان میں نظر ہی نہیں آ رہی تھی اور پیپلز پارٹی کے پاس بظاہر میدان میں اتارنے کو امیدوار ہی نہیں تھے۔ ایسے میں میاں نواز شریف نے ہر ممکن کوشش بجا لاتے ہوئے ہر طرف انتخابی اتحاد کرنا شروع کر دیئے۔
کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر حکومتوں میں شامل ہوتی ہیں اور چھوڑتی ہیں۔ ایسے میں یہ دو جماعتیں جس کے ساتھ اتحاد میں آجائیں اس پارٹی کو اقتدار میں آںےسے کوئی نہیں روک سکتا۔
میاں محمد نواز شریف نے نواز شریف نے آغاز ایم کیو ایم ہی سے کیا اور باپ پارٹی بارے اپنے اور مریم نواز کے تمام تر بیانات بھلا کر بلوچستان عوامی پارٹی سے بھی جا ملے۔ تاہم گزشتہ دنوں میں ہونے والی چند حیرت انگیز تبدیلیوں نے نواز شریف کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
نگران حکومت میں وزیر داخلہ کا منصب رکھنے والے سرفراز بگٹی جنہوں نے ایک ماہ قبل ایک نجی ٹی وی پروگرام میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اگر نگران وزیر نہ ہونے تو ن لیگ کا حصہ ہوتے، حیرت انگیز طور پر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سرفراز بگٹی کو اسٹیبلشمنٹ نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کیلئے چن لیا ہے۔ ان کا پیپلز پارٹی میں شامل ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب بلوچستان میں حکومت پیپلز پارٹی بنائے گی۔ اس کے علاوہ سابق وزرائے اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور عبدالقدوس بزنجو سمیت 10 سے زائد بڑے الیکٹیبلز پیپلز پارٹی کا حصہ بن چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: میاں صاحب کا خطاب: نہ مزہ نہ سواد

سیئنئر صحافی اور تجزیہ نگار اسد اللہ خان کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو سندھ اور بلوچستان میں حکومت دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جو نواز شریف کیلئے پریشانی کی بات ہے۔ اسی طرح پنجاب میں بھی آزاد اور استحکام پاکستان پارٹی جیسے سیاسی کھلاڑیوں سے نواز شریف کے ہاتھ باندھے جا سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ن لیگ کے استحکام پاکستان پارٹی سے سیٹ ایڈجسمنٹ کی باتیں شروع ہوئیں اور اس حوالے سے دو پارٹیوں کے درمیان کئی میٹنگ بھی ہوئیں۔ ن لیگ کی بڑی پیمانے پر استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی باتیں بھی زبان زد عام رہیں۔
تاہم سینئر صحافی عیسیٰ نقویٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ میاں نواز شریف کے کان میں کسی نہ یہ بات پھونک دی ہے کہ اگر اتنے بڑے پیمانے پر استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کر لی جاتی ہے تو الیکشن کے بعد 2018 کی طرز پر جہاز اڑیں گے اور ایک بہت سے آزاد امیدوار استحکام پاکستان پارٹی کا حصہ بنیں گے ۔
اس کے بعد اگر وفاق میں ن لیگ کو حکومت دے دی جاتی ہے تو بھی یہ پریشر گروپ بہت بڑا ہوگا اور وہ ناں تو اس بات کا پابند ہوگا کہ ہر حال میں ن لیگ کو قانون سازی یا بجٹ پاس کرانے میں مدد کرے اور نہ ہی اس بات کا پابند ہو گا کہ وہ اعتماد کے ووٹ جیسے مواقعوں پر ن لیگ کو سپورٹ کریں۔
اگر یہ گروپ اپنا وزن پیپلز پارٹی کے پلڑے میں ڈال دے دو پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت بنانے کے قابل ہو جائے گی۔ ایسے میں نواز شریف جتنی آسانی سے وزیر اعظم کی کرسی دیکھ کر وطن واپس آئے تھے وہ اتنی آسان نظر نہیں آرہی۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button