صحتمتفرق

مرغا بننے کے فوائد سامنے آ گئے؛ یہ سزا نہیں دوا ہے

سوشل میڈیا پر ایک تحریر شیئر کی جارہی ہے جس میں نوجوان مرغا بننے کے فوائد شیئر کرنے کے ساتھ اپنے اساتذہ کرام کا شکریہ ادا کر رہے ہیں جنہوں نے انہیں سکول کے دنوں میں مرغا بنایا۔

یہ پوسٹ جو سالہا سال سے سوشل میڈیا پرزیرگردش ہے ایک بار پھر زیادہ شیئر کی جانے لگی ہے۔ اگرچہ ہم کوئی طبی ماہر نہیں کہ مرغا بننے کے جو فوائد شیئر کئے جارہے ہیں ان کے حق یہ مخالفت میں رائے دے سکیں۔ تاہم یہ تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ یہ ہمیں ہمارے سکول کے دنوں میں واپس لے کر جاتی ہے۔

 

سکول میں مرغا بننے کے فوائد سامنے آ گئے:

سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تحریر میں مرغا بننے کے فوائد شیئر کئے گئے ہیں ۔ مرغا بننے سے کولہوں، ہیمسٹرنگز، اور پنڈلیوں کو کھینچتی ہے، رانوں اور گھٹنوں کو مضبوط کرتی ہے، ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط اور لچکدار رکھتی ہے۔

اسی طرح  مرغا بننے سے تناؤ، اضطراب، ڈپریشن، اور تھکاوٹ کم ہوتی  ہے۔ یہ سزا دماغ کو پرسکون کرتی ہے اور اعصاب کو سکون دیتی ہے۔

اس کے علاوہ ریڑھ کی ہڈی، گردن، اور کمر میں تناؤ کو دور کرتی ہے، اور پیٹ کے پٹھوں کو فعال کرتی ہے۔

 

تحریر لکھنے والے نے آخر میں لکھا کہ اپنے تمام اساتذہ اکرام کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے بچپن میں شاندار ایکسرسائز کروا کر تندرستی کی راہ پر گامزن کیا۔

 

مزید پڑھیں:‌صرف 700 روپے میں‌ ایئر پیوریفائر بنانے کا آسان نسخہ

 

اب اگر سکول کا دور یاد کر لیا جائے اور ان تمام فوائد کو تسلیم کر لیا جائے تو اس استاد کا واقعہ شکریہ بنتا ہے جو ہمیں یہ کہا کرتے تھے کہ بیٹا آپ کو بڑے ہو کر ہماری باتیں ضرور یاد آئیں گی۔

آج ان سر سے بات ہو تو بندہ انہیں بتائے کہ سر صرف آپ کی باتیں نہیں ، آپکی دی ہوئی سزا بھی بہت فائدہ مند ثابت ہورہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی آجکل کے نوجوان جس طرح ہر وقت موبائل استعمال کرنے کے بعد جھکا ہوا پوسچر لئے گھوم رہے ہیں اور کچھ دیر سیدھا بیٹھنا پڑھ جائے تو ایسا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، تو انہیں چاہیے کہ ایسے اساتذہ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کا بچپن کا حکم بجا لاتے ہوئے مرغا بن جائیں۔

بھلے اس کے وہ طبی فوائد نہ ہوں لیکن کم از کم تھوڑی ورزش کرنے کو ملی گی اور پوسچر تو سیدھا ہوگا۔

 

مار نہیں پیار کا کلچر اور ہمارے سکول:

کہتے ہیں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب بچوں پر سختی کی جائے اس لئے اب سکولوں میں مار نہیں پیار کا کلچر  پروموٹ کیا جارہا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک والدین بھی بچوں کو اساتذہ کے سپرد کرتے ہوئے یہ کھلی اجازت دیتے تھے کہ جتنا چاہیں ماریں، بس یہ کچھ سیکھ جائے۔

لیکن اب یہ سہولت ختم ہوتی جارہی ہے۔ والدین نہ صرف خود بچوں پر سختی سے اجتناب کرتے ہیں بلکہ وہ ایسے اساتذہ کے بھی سخت خلاف ہوتے ہیں جو تشدد کا راستہ اپناتے ہیں۔

ماہرانہ رائے میں ایک استاد کو اس قدر ماہر ضرور ہونے چاہیے کہ وہ بنا مارے پیٹے بھی اپنی بات سمجھا سکے۔

سختی کبھی بھی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کا درست طریقہ نہیں ہوتی۔ آپ وقتی طور پر بچے کو سختی یا مار پیٹ سے کسی بات پر قائل کر سکتے ہیں لیکن آپ اسے اس چیز کے تابع نہیں بنا سکتے۔

وہ بچہ آج آپ کے ڈر سے کوئی کام کرے گا تو کل جب آپکا ڈر اس سے ہٹے گا تو وہ دوبارہ اپنی روٹین میں آ جائے گا۔ ایسا بچہ تعلیم حاصل کر کے بھی کسے لائق نہیں بنے گا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button