
سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق الیکشن کمیشن کے ابہام کی درخواست کو تاخیری حربہ قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے نتائج ہوسکتے ہیں۔
12 جولائی کو سپریم کورٹ کے 8 ججز نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے پارٹی سرٹفیکیٹ جمع کرانے والے 39 اراکین کو پی ٹی آئی کے اراکین تسلیم کرنے اور بقیہ 41 رہنماؤں کو پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے کے بعد پی ٹی آئی کا ممبر تسلیم کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
اس حوالے سے ابتدائی طور پرالیکشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی تھی۔ تاہم بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کر دی گئی جس میں کہا گیا کہ فیصلے میں ابہام ہے۔
تاہم آج جسٹس مںصور عل شاہ کے سربراہی میں اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 ججز نے مخصوص نشستوں کیس کے اس فیصلے بارے ابہام پر 4 صفحات پر مشتمل آرڈر جاری کردیا۔
یہ آرڈر ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب حکومت پی ٹی آئی کے اراکین کے بل بوتے پر ججز کے حوالے سے ایک آئینی ترمیم کرنے کا ارادہ رکھتی کر رہی ہے۔ تاہم اب ایسا ہونا مشکل ہو گیا ہے۔
مزید پڑھیں:عمران خان کے ملٹری ٹرائل پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا حکم
اس کی وضاحت کرتے ہوئے صحافی مغییث علی کا کہنا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ سمیت 7 ججز نے ابہام دور کردیا، پی ٹی آئی کا کوئی رُکن قومی اور صوبائی اسمبلی میں آزاد نہیں ہوگا، وہ پاکستان تحریک انصاف کا حصہ سمجھا جائے گا، فیصلے کے بعد اگر کوئی فلور کراسنگ کرتا ہے تو اُس اپنی سیٹ سے ہاتھ دھونا ہوگا۔
سپریم کورٹ کے اس آرڈ پر اپنی رائے دیتے ہوئے صحافی بشیر چوہدری کا کہنا تھا ک ہ موجود چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے کی جانے والی آئینی ترمیم کا راستہ بھی آنے والے چیف جسٹس نے روک دیا۔