
سابق نگران وزیر گوہر اعجاز نے آئی پی پیز کے ساتھ کیئے گئے معاہدوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہےجو عوام کی جیبوں سے نہ صرف بجلی کے بلوں سے بلکہ اور کئی ذرائع سے پیسے بٹورنے کا خوفناک منصوبہ ہے۔
اپنے ایکس اکاؤنٹ پر گوہر اعجاز نے ان تمام معاہدوں کی مکمل تفصیلات شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ میں قوم کے ساتھ آئی پی پی کے حوالے سے معلومات دے رہا ہوں جو ہماری ٹیم نے پچھلے سال کے دوران فیول کی لاگت، کیپیسٹی کی ادائیگیوں اور ہر آئی پی پی کو ادا کیے جانے والے فی یونٹ خرچ کا جائزہ لیا ہے۔
میں اس فی یونٹ قیمت کو دیکھ کر دلبرداشتہ ہوں جو حکومت قوم کی جانب سے آئی پی پی کو بجلی کی پیداوار اور فی یونٹ لاگت کی مد میں ادائیگی کر رہی ہے، جس کی وجہ سے صنعتی، تجارتی اور گھریلو صارفین کو یہ مصیبت لاحق ہے۔
حکومت اور آئی پی پیز کے مابین معاہدوں کی وجہ سے ایک پاور پلانٹ سے سب سے زیادہ بجلی کے یونٹ 750 روپے فی یونٹ خرید رہی ہے، جبکہ کوئلے کے پاور پلانٹس سے اوسطاً 200 روپے فی یونٹ خرید رہی ہے۔ ہوا اور سولر سے 50 روپے فی یونٹ سے زیادہ۔
سب 20 فیصد سے کم صلاحیت پر اور آئی پی پی کو ادائیگی 1.95 کھرب روپے ہے اور 160 ارب روپے کی تصدیق جاری ہے۔ حکومت 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر ایک پلانٹ کو 140 ارب روپے، 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر دوسرے پلانٹ کو 120 ارب روپے، اور 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر تیسرے پلانٹ کو 100 ارب روپے کیپیسٹی کے مد میں ادائیگی کر رہی ہے۔ یہ کل تین پلانٹس کو 370 ارب روپے بنتے ہیں۔ اور یہ تب جبکہ پورا سال 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر چلتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی پابندی، گرفتاریاں شروع ہو گئیں
تمام آئی پی پیز کی معلومات، جس میں ہر ایک کو ادا کی گئی رقم اور ہر آئی پی پی سے قوم کو فی یونٹ لاگت شامل ہے، اب دستیاب ہے۔ یہ سب معاہدوں میں "کیپیسٹی کی ادائیگی” کی شق کی وجہ سے ہے، جو پلانٹس کو منافع خوری کی اجازت دیتی ہے، جس کے نتیجے میں آئی پی پیز کو بغیر بجلی پیدا کیے کیپیسٹی کی مد میں ہوشربا ادائیگی کی جاتی ہے۔
اس کا حل آئ پی پیز کو "کوئی کیپیسٹی کی ادائیگی” نہ کرنے میں ہے، صرف سستی بجلی فراہم کرنے والوں سے بجلی کی خریداری کے لیے ادائیگی کی جائے۔ تمام آئی پی پیز کو کسی دوسرے کاروبار کی طرح تجارتی پلانٹس کی طرح تصور کیا جانا چاہیے، 52 فیصد حکومت کے زیر ملکیت ہیں اور 28 فیصد پاکستان کے نجی شعبے کے زیر ملکیت ہیں، لہٰذا 80 فیصد پاکستانیوں کے زیر ملکیت ہیں۔ ہمیں 60 روپے فی یونٹ بجلی فروخت کی جا رہی ہے صرف ان بدعنوان معاہدوں، بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے۔ براہ کرم، سب کو اپنے ملک کو بچانے کے لیے ان معاہدوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے جو ملک کے 40 خاندانوں کو منافع دے رہے ہیں۔