
عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال کی سزا سنانے کے بعد امریکہ کا مؤقف بھی سامنے آگیا۔ گزشتہ روز امریکی محکمہ خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان میتھیو ملر سے عمران خان کو سزا اور ان کی پارٹی کو الیکشن میں آزادانہ حصہ نہ لینے دینے کے معاملے پر سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک صحافی کی جانب سے جب پاکستان کے حوالے سے سوال کرنے کا کہا گیا تو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس کمرے میں شاید بہت سے لوگ ہونگے جو پاکستان کے بارے میں بات کریں گے۔ جس کے بعد صحافی نے عمرا ن خان سے متعلق سوال کیا۔
صحافی نے جب میتھیوملر سے سائفر کیس میں عمران خان کی سزا سے متعلق سوال کیا تو میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ امریکہ عمران خان کے مقدمات کا مشاہدہ کرتے رہا ہے لیکن اس کیس کی سزا پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔یہ پاکستانی عدالتوں کا اندرونی قانونی معاملہ ہے۔
عمران خان کو جلد بازی میں دی گئی سزا پر غیر ملکی صحافیوں کے امریکہ سے تابڑ توڑ سوال
— Muqadas Farooq Awan (@muqadasawann) January 30, 2024
یاد رہے کہ امریکہ اس کیس میں ایک براہ راست فریق کے طور پر بھی دیکھا جاتا رہا ہے کیونکہ سائفر کیس سارا امریکہ سے آنےوالے اس مراسلہ سے ہی جڑا ہے۔ عمران خان امریکی سفارتکار ڈونلڈ لو کو اس کیس میں بطور گواہ بھی بلوانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ تاہم ٹرائل کی بے ضابطگیوں کے باعث وہ ایسا نہ کر پائے۔
مزید پڑھیں: عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید کی سزا
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر ہی کئی مواقعوں پر اس کیس میں عمران خان کے الزامات کو جھوٹا قرار دیتے رہے ہیں۔ تاہم فیصلہ آجانے کے بعد امریکہ اس پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنےسے گریز کر رہا ہے۔
سزا سے متعلق تبصرے سے گریز کے بعد ایک فالو اپ سوال میں جب صحافی کی جانب سے پوچھا گیا کہ ایک مقبول پارٹی کے خلاف الیکشن سے چند دن قبل تمام ادارے صف آراء ہیں اور انہیں روکا جا رہا ہے کیا یہ جمہوری ڈھانچے کے بر خلاف نہیں؟
اس پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عدالتوں میں چلنےوالے معاملات پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے جس پر بات نہیں کریں گے تاہم اتنخابات کے معاملے پر ہم مانیٹرنگ کر رہے ہیں اور ہمارا اصولی مؤقف رہا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے کا برابر موقع ملنا چاہیے۔
اس کے علاوہ پاکستان میں صحافیوں کو نوٹسز بھیجے جانے متعلق بھی سوال کیا گیا جس پر ترجمان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بارے ابھی معلومات نہیں۔ تاہم وہ اس پر ریسرچ کر کے دوبارہ مؤقف دیں گے۔