
پاکستان میں متوسط طبقے کیلئے اپنی سواری/ گاڑی خریدنے کا ایک ذریعہ کار لون ہے جس کے ذریعے بینک کے قرض پر گاڑی خریدی جاتی ہے۔
اسے آٹو فنانسنگ / کار لون جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے اور عموماً یہ سکیم ایک سے سات سال تک کی مدت پر مشتمل ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی صارف کو 15 سے 30 فیصد کے درمیان ڈاؤن پیمنٹ بھی دینا ہوتی ہے۔
درخواست گزار کو شناختی دستاویزات، آمدنی کے دستاویزات سمیت دیگر شرائط پورا کرنا ہوتی ہیں، جس کے بعد بینک گاڑی کیلئے رقم فراہم کرتا ہےلیکن یہ گاڑی بینک کے نام ہی رجسٹرڈ رہتی ہے۔
اقساط کی کامیابی سے تکمیل کے بعد گاڑی کی رجسٹریشن صارف کے نام منتقل کر دی جاتی ہے۔
پاکستان میں کار لون لینے کا رحجان کم کیوں ہو رہا ہے؟
پاکستان میں چند سال قبل تک یہ رحجان بہت عام تھا کہ متوسط طبقہ بینک سے کار لون کے ذریعے گاڑی نکلوا لیا کرتے تھا۔
لیکن اب گزشتہ چند سالوں میں اس رحجان میں بہت کمی دیکھی گئی ہے۔ ماہرین کے نزدیک اس کمی کی کئی وجوہات ہیں جنہیں ہم سامنے رکھیں گے تو یہ سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ صارفین اب کار لون کیلئے اب ویسے متحرک کیوں نہیں رہے؟
مزید پڑھیں: پی ایس ایل بائیکاٹ کیوں ٹرینڈ کر رہا ہے؟
گاڑیاں مہنگی لیکن کار فنانسنگ کی شرح محدود:
مہنگائی نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اچھی گاڑی اب 40 سے 60 لاکھ تک کی آتی ہے جبکہ سٹیٹ بینک کی پالسی کے مطابق نجی بینک صرف 30 لاکھ روپے تک کا کار لون دے سکتے ہیں۔
یوں اچھی گاڑی کیلئے مقررہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹی گاڑیوں پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے۔ اور چھوٹی گاڑیوں کے مسائل کی وجہ سے شہری اس لون سکیم کی طرف مائل نہیں ہوتے۔
مہنگائی کے باعث قسطوں کی ادائیگی ناممکن:
تنخواہیں وہیں کی وہیں جبکہ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ، شہری اپنی یوٹیلٹی بلز اور روزمرہ ضروریات کو پورا نہیں کر پار ہےہیں۔
ایسے میں کار کیلئے لئے گئے قرض کی قسطیں ادا کرنا محال ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اگر سستی کی جائے تو جرمانہ پڑجاتا ہے اور اگر بروقت ادائیگی کی جائے تو کوئی نہ کوئی بنیادی ضرورت رہ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شہری اب اس لون سکیم سے متنفر ہوتے جارہےہیں۔
اس کے علاوہ بینکوں کی سخت شرائط اور ٹیکسز کی بھرمار نہ بھی زندگی اجیرن کردی ہے جس سے شہری اب اس سکیم کی طرف رخ نہیں کرتے۔