
پاکستان تحریک انصاف نے دوسال سے اپنے خلاف جاری کارروائیوں سے سبق سیکھ لیا ہے اور یہ سبق ہے اپنی سیاسی طاقت کا استعمال کرنا اور وہ بھی پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے۔
8 فروری کے الیکشن میں بڑی پیمانے پر دھاندلی کے بعد پی ٹی آئی کے ہاتھ سے جب اپنی کئی نشستیں نکل گئیں تو اس کے بعد پی ٹی آئی کو مشورے ملے کے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیں ۔ اس سے حکومت پر پریشربڑھے گا اور نئے انتخابات کی طرف چلے جائیں گے۔
تاہم پی ٹی آئی نے ایسا کرنے سے انکارکرتے ہوئے دانشمندانہ فیصلہ کیا اور پارلیمنٹ کے فورم کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی جدو جہد شروع کر دی۔
اگرچہ اس دوران پی ٹی آئی پر چھائے جبر کے بادل نہ چھٹ سکے لیکن اس میں کمی ضرور دیکھی گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے فورم کو استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے بہت سی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔
حالیہ دنوں میں آئینی ترامیم کیلئے پی ٹی آئی نے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف مولانا فضل الرحمان کے ساتھ بھی ہاتھ ملا لئے اور اس کا نتیجہ بہت مثبت نکلا جس کے ذریعے پی ٹی آئی نے حکومت کی یک طرفہ آئینی ترامیم سے روک لیا۔
اس کے علاوہ چند دن قبل جب پی ٹی آئی اراکین کو اسمبلی کے اندر سے گرفتار کیا گیا تو اس موقع پر بھی پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ اور پارلیمانی کمیٹیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ، تاہم اس فیصلے کو واپس کر کے پی ٹی آئی نے بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔
مزید پڑھیں:پی ٹی آئی اور مولانا جیت گئے، حکومت کو بڑی ہار
اول تو اپنے اراکین کو اسمبلی اجلاس کے لئے پروڈکشن آرڈر جاری کرا لئے۔ دوسرا پارلیمنٹ لاجز کو ہی سب جیل قرار دے دیا گیا۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے جب اسمبلی میں اپنا معاملہ رکھا تو حکومتی اتحاد کی جماعتوں نے بھی ان کا ساتھ دیا جس سے پی ٹی آئی کو تقویت ملی ۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی نےخیبرپختونخوا اسمبلی کے ذریعے بھی طاقتور حلقوں کو پیغام دیا کہ وہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ ہیں اور کسی بھی طرز کا ایڈونچر نہ کیا جائے۔
یوںسالہا سال کی سیاست کے بعد بالاآخر پاکستان تحریک انصاف ایک بڑا سبق سیکھ چکی ہے اور وہ ہے پارلیمںٹ میں اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کرنا۔