بلاگدنیا

بھارت میں تاریخی مسجد خطرے میں

کسی بھی مذہب کے لیے اس کی مخصوص کردہ عبادت گاہیں خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور پوری دنیا میں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے۔ جنوبی ایشیا کی اگر بات کی جائے تو برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد سے ہی خصوصا بھارت میں مذہبی عبادت گاہیں تنازعے کا شکار رہیں ہیں۔ 6دسمبر 1992میں بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں نے شہید کردیا تھا اور یہاں رام مندر بنانے کا فیصلہ کیاگیا تھاجس کے نتیجے میں سینکڑوں مسلمان شہید ہو گئے تھے
اس کے بعد سے ہی یہ سلسلہ چلا آرہا ہے اور اس وقت ایک اور تاریخی مسجد خطرے میں ہے. بھارت کے دارلحکومت دہلی میں واقع تاریخی ”سنہری مسجد” کو لے کر بہت بڑا تنازع چل رہا ہے اور ایک معمولی مسئلے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
دہلی میں ادیوگ بھون کے سامنے گول چوراہے پر واقع تاریخی ”سنہری مسجد” یا ”سنہری باغ مسجد کو ٹریفک کا بہانہ بنا کر متنازع شکل دینے کی کوشش کی جارہی ہے یہ مسجد تقریباً 150 سال پرانی ہے اور تاریخی نوعیت سے اہمیت کی حامل ہے جو مسلم کمیونٹی کے ورثے میں تاریخی اہمیت رکھتی ہے جس وجہ سے سنہری مسجد کو 2009 میں ہیریٹیج III عمارت کا درجہ حاصل ہواہے۔
سنہری مسجد جنوبی ایشیا کی شاندار تاریخ اور تعمیراتی شان و شوکت کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کی تعمیر میں لاکھوری اینٹوں کا استعمال کیا گیا ہے۔یہی نہیں سنہری مسجد ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخوں میں ایک خاص مقام بھی رکھتی ہے، جس نے مولانا حسرت موہانی جیسے آزادی پسندوں کی رہائش گاہ کے طور پرایک اہم کردار ادا کیا تھا، جن کا شمار ہندوستان کی تحریک آزادی میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ۔
مزید پڑھیں‌: فلسطین کے بعد ایک اور اسلامی ملک اسرائیل کا نشانہ

مسجد کے نقصان کے بڑھتے ہوئے خطرے نے ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
بقول نئی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی)کے سنہری مسجدٹریفک کی خرابی کا باعث بن رہی ہے جس سلسلے میں نئی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی) نے دارالحکومت میں سنہری مسجد کو ہٹانے کے لئے ایک عوامی نوٹس جاری کیا ہے تاکہ ٹریفک میں پیش رکاوٹیں جلد از جلد دور کی جاسکیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسد مدنی نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو لکھے ایک خط میں این ڈی ایم سی کے نوٹیفکیشن پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ”مشترکہ ثقافتی ورثے” کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان پر زور دیا۔
اس حوالے سے کئی خبریں اور بھی سننے میں آرہی ہیں کہ سنہری مسجد کی زمین کی ملکیت کو لے کر متضاد دعو ے کئے جارہے ہیں جس میں ایک طرف دہلی وقف بورڈ اپنی ملکیت کا دعویٰ کررہی ہےتو دوسری طرف این ڈی ایم سی کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ زمین حکومت کی ہے۔ یوں یہ تاریخی مسجد خطرے میں ہے.
این ڈی ایم سی سنہری مسجد کو شہید کرنے کے لیے عوام کی رائے طلب کر رہی ہے۔جمعیۃ علماء ہند کے مولانا حکیم الدین قاسمی نے دہلی کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ این ڈی ایم سی کے اس منصوبے کے خلاف آواز بلند کریں کیونکہ مسجد کو شہید کر نے کے لئے ٹریفک صرف ایک بہانہ ہے۔ اس سے قبل اس مسجد کو گرانے کے اندیشے کے پیش نظر عدالت میں کیس داخل کیا گیا تھا اور عدالت نے اس پر اسٹے لگاتے ہوئے یہ یقین دہائی کرائی تھی کہ اسے منہدم نہیں کیا جائے گا۔
مگر اسکے باوجود بھی این ڈی ایم سی اگر کوئی غلط قدم اٹھاتا ہے تو وہ توہین عدالت کا بھی مرتکب ہو گا۔ لہٰذا این ڈی ایم سی اپنے اس مذموم ارادے سے فوری باز آجائے اور ملک میں کشیدگی پھیلانے سے گریز کرے۔
سنہری مسجد کو شہید کرنے کے خدشےکو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم تنظیم جماعت اسلامی ہند نے بھی مسجد کی حفاظت کے لیے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔اس مسجد کی تاریخی اور ثقافتی حیثیت کی وجہ سے یہ دہلی کے 141 تاریخی مقامات کی فہرست میں شامل ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button