پی ٹی آئی کارکن ہونے کا الزام ؛ پشتون مزدورں کےساتھ عدالت میں کیا ہوا؟

حبیب کریم ایڈوکیٹ نے اسلام آباد انسداد دہشت گردی عدالت میں پشتون مزدور کے افسوسناک استحصال کا واقعہ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ آج اسلام آباد دہشتگردی کی عدالت میں پی ٹی آئی کے جلسے میں شرکت کے الزام میں گرفتار چار سو کے قریب افراد کو پیش کیا گیا۔ میں نے جتنے بھی قیدی دیکھے، تمام کے تمام پشتون تھے۔ اور جن بیسیوں قیدیوں سے میں ملا، بشمول ان کے کہ جن کی قانونی مدد کے لیے میں وہاں موجود تھا، کسی ایک کا بھی پی ٹی آئی سے دور دور تک کا تعلق بھی نہیں تھا۔
حبیب کریم ایڈوکیٹ نے مزید لکھا کہ ننانوے فیصد قیدی عام مزدور تھے۔ کوئی بائیکیا والا، تو کوئی دیہاڑی دار، کوئی کوئٹہ کیفے کا ویٹر تو کوئی سڑک کے کنارے پھلی بیچنے والا۔ کسی کو راہ چلتے اٹھا لیا تو کسی کو دوکان سے گھسیٹ کر نکالا گیا۔ عدالت کے احاطے سے باہر ایک ہزارہ خاتون اور اس کی بیٹی آنسوؤں میں بھیگے گڑ گڑاتے ہوۓ قدموں میں گر گئے۔ ماں کا دوپٹہ گرا ہوا، چہرہ آگ کے گولے کی طرح دھکتا ہوا سرخ، آنسوؤں سے تَر، بیہوشی کے قریب تھی۔ حتی کہ ساتھ کھڑے پولیس والے کا دل بھی پسیج گیا۔ میں نے سنبھالا اور ٹوٹی پھوٹی دَری زبان میں تسلی دینے کی کوشش کی۔ بیٹی نے کہا کہ "ایک ہی برادر ہے میرا۔ قسم بخدا ما مسلمان ھستیم۔ کسی سیاست کو نہیں جانتا۔ بخدا کچھ نہیں جانتا ہم اس ملک میں۔ کوئی اور نہیں ہے ہمارا۔ ایک روپیہ نہیں ہمارے پاس۔ برادر دوکان میں ریپئیرنگ کا کام سیکھ رہا ہے کہ وہاں سے یہ لوگ نے اٹھا لیا۔
مزید پڑھیں:شاہد خٹک کے ہاتھ میںدم توڑنے والے پی ٹی آئی کارکن کا آخری پیغام
حبیب کریم ایڈوکیٹ نے مزید لکھا کہ ایک قیدی وین سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے بڑی مشکل سے بچے کو ڈھونڈا۔ ماں کو تصویر دکھائی کہ بچہ یہیں ہے، محفوظ ہے تو میرا موبائل ہاتھ سے لے کر زار و قطار چُومنے لگی اور کئی منٹ تک موبائل سینے سے لگاۓ رکھا۔ پاس موجود ایک اور افغان نوجوان نے قمیض کے بٹن کھولے اور شرٹ پہ موروں سے کشیدہ کیا ہوا نمبر دکھا کر بولا کہ دا می رور نمبر دا۔ یعنی کہ یہ افغان بچے دن رات اسی خوف میں رہتے ہیں کہ کبھی بھی کہیں سے بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے تو گھر میں ماں نے شرٹ پہ نمبر موروں سے سِی لیا ہے کہ کہیں گرفتار ہو جاۓ تو رابطے کی سبیل بنے۔ آج دہشت گردی کی عدالت میں دردناک صورتحال تھی۔ سارے درماندہ پشتون۔ جو مزدور پشتو بولتا ہوا ملا ہے، یا چہرے کے خدوخال نے اس کے بے کَس و لاچار افغان ہونے کا پتہ دیا ہے، اسے اٹھا لیا گیا ہے۔ یہ اجتماعی سزا اور نسلی تعصب کی بدترین شکل ہے۔ ہر چہرہ آج کرب و الم کی داستان تھا۔