انتخابات 2024

عالمی عدالت انصاف بھی فلسطین کو انصاف نہ دے سکا

غزہ میں جاری انسانیت سوز سلوک پر عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیل کا کچھ نہ بگاڑ پائی۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کی خلاف غزہ میں نسل کشی کرنے پر دائر کی گئی درخواست میں عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے اسرائیل سے نسل کشی روکنے کا مطالبہ کیا تاہم عالمی عدالت انصاف بھی فلسطینیوں کو انصاف نہ دے سکی اور جنگ بندی کے احکامات بھی جاری نہ کر سکی۔
غزہ میں کئی ماہ سے جاری انسانیت سوز سلوک پر جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس پر سماعت 11 جنوری کو شروع ہوئی۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے دلائل میں اسرائیل کو اقوام متحدہ کے کنونشن کی خلاف ورزی کرنے اور فلسطینیوں کو نسل کشی کرنے کا مرتکب قرار دیا گیا۔
دو دن جاری رہنے والی اس سماعت میں اسرائیل کو اپنے دفاع کا بھی موقع دیا گیا جس پر اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کے اقدامات پر سرے عام مکر گیا۔ یہی نہیں اسرائیل اور حمایتی ملک امریکہ نے بھی اس مقدمے کو بے بنیاد قرار دیا۔
اسرائیل نے یہ بھی مؤقف اپنایا تھا کہ عالمی عدالت انصاف کو اسرائیل کے خلاف سماعت کرنے کا اختیار نہیں ہے اور جنوبی افریقہ درخواست دائر نہیں کر سکتا۔ جس پر عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ عالمی عدالت انصاف سماعت کر سکتا ہے اور جنوبی افریقہ کو کیس کرنے کا حق حاصل ہے۔
جہاں حماس سمیت فلسطین کے حامی اس فیصلے سے خوش دکھائی دے رہے ہیں تو وہیں دوسری جانب اس فیصلے پر افسوس کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ عالمی عدالت نے جنگ بندی کا فیصلہ جاری نہ کر کے فلسطینیوں اور انکے حمایتیوں کو صدمہ بھی پہنچایا ہے۔
یہاں یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ اسرائیل کے 57 اسلامی ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی عالمی عدالت انصاف کا دروازہ نہ کھٹکھٹا پایا اور یہ کام ایک غیرمسلم ملک نے کیا۔

مزید پڑھیں: غزہ کی تکلیف دہ صورتحال بھی مسلم ممالک کو ایک نہ کرسکی

اس پر ٹویٹ کرتے ہوئے سینئر صحافی اعزاز سید کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے 57 ممالک کی بجائے نیلسن منڈیلا کا جنوبی افریقہ فلسطین کیلئے آواز اٹھانے کیلئے عالمی عدالت انصاف گیا اور ہم ابھی بھی مسلم امہ کی غلط فہمی میں ہیں۔

اس سے قبل اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی بھی فلسطین کے معاملے پر ایک نہ ہو سکی۔ اگر او آئی سی کوئی واضح اقدامات لے پاتا یا پھر اسلامی ممالک کا ایک گروہ بھی عالمی عدالت انصاف میں یہ درخواست دائر کرتا تو شاید آج یہ فیصلہ تھوڑا مختلف ہوتا اور جنگ بندی تک کے احکامات بھی جاری ہوتے۔
اس عبوری حکم کے بعد عالمی عدالت انصاف مکمل فیصلہ کب سنائے گی؟ کیا اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات ہوں گی؟ اس بارے کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ اس سے قبل بوسنیا میں 1992 سے 1995 تک جاری رہنے والی جنگ کے مقدمے پر جنگ ختم ہونےکے 12 سال بعد 2008 میں حتمی فیصلہ سنایا گیا تھا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button