پی ٹی آئی احتجاج

پی ٹی آئی اس نہج تک کیسے پہنچی ؟

سکندر سلطان راجہ کے الیکشن کمیشن نے الیکشن لڑنے کی آزادی چھین لی۔ الیکشن کمیشن کی آنکھوں کے سامنے انٹراپارٹی الیکشن انتظامیہ نے سبوتاژ کئے، مرکزی دفتر تک سیل کر دیا لیکن اس نے انٹراپارٹی الیکشن ماننے سے انکار کردیا۔ آخر وقت پر انتخابی نشان ہی چھین لیا۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی امیدوار جیت گئے تو فارم 47 کی دھاندلی سے اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا
انتظامیہ نے جلسے جلوس کرنے کی آزادی چھین لی۔ جہاں جلسہ ہوتا وہاں دفعہ 144 نافذ کی۔ پرچے درج کئے، گرفتاریاں کیں۔ 9 مئی کے بعد جماعت کو نشان عبرت بنایا۔ رہنماؤں اور کارکنوں کے کاروبار تباہ کر دئیے، گھروں میں گھس کر بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا۔ شدید اعتراضات کے باوجود الیکشن کرانے کے لیے ریٹرننگ اور پریذائیڈنگ افسر فراہم کر دئیے۔ بدترین کا دھاندلی کا بھانڈا پھوڑنے والے کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کو غائب کر دیا۔
ریٹرننگ اور پریذائیڈنگ افسر انتظامیہ سے نہ لینے کی اپیل مسترد کر کے تاریخی دھاندلی کی بنیاد رکھ دی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست کے باوجود ازخود نوٹس نہ لیا، الٹا کمشنر کا مذاق اڑایا۔ فل کورٹ نے بچے کھچے ارکان کی بنیاد پر مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیا تو قاضی اور امین الدین وغیرہ نے حکومت کو فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کا مشورہ دے دیا۔ قاضی فائز تواتر کے ساتھ متنازع نتائج کے فیصلے ن لیگ کے حق میں کر کے اس کی نشستیں بڑھاتے رہے۔ نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 26 ویں ترمیم کے خلاف اپیلیں التوا میں ڈال دیں۔ آئینی بنچ نے اسلام آباد میں کارکنوں کی ہلاکت پر از خود نوٹس لینے سے صاف انکار کردیا۔
دھاندلی کی شفاف تحقیقات سے بچنے کے لیے حکومت نے ہائی کورٹس کے ٹربیونل بدل دئیے۔ من پسند ریٹائرڈ جج لگا کر معاملہ لٹکا دیا۔ بنچز کمیٹی بنانے والے جج بدل کر مرضی کا بنچ بنوایا اور وفاداریاں بدلنے کے لیے آئینی ترمیم کی راہ ہموار کی۔ چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ بدل کر جسٹس منصور کو ان کے حق سے محروم کر دیا۔ آئینی بنچ بنا کر سپریم کورٹ کا حلیہ بگاڑ دیا۔ تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن ایک مقدمے سے نکلتے تو انہیں دوسرے میں گرفتار کر لیا جاتا۔ قانون کو عملی طور پر مذاق بنا کر رکھ دیا گیا
ن لیگ، پیپلزپارٹی اور حتیٰ کہ بظاہر اتحادی جے یو آئی بھی پی ٹی آئی کے حصے کی نشستیں لینے عدالت پہنچ گئی۔ سپیکر نے بھی پی ٹی آئی کا مخصوص نشستوں پر حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ صرف یہی نہیں، وہ نشستیں باقی جماعتوں میں بانٹنے کے لیے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے ارکان کو اغوا کر لیا گیا۔ خود کو پی ٹی آئی کا بار بار پی ٹی آئی کا رکن کہنے والے عادل بازئی کو جعلی پارٹی سرٹیفیکیٹ پر سپیکر ایاز صادق نے نااہل کروا دیا۔

مزید پڑھیں:سیاسی مخالفین کیلئے دوسری سیاسی جماعت کی لاشیں تفریح کا سامان

اسٹیبلشمنٹ نے دھونس، دھمکی، دباؤ، سنسرشپ اور پابندیوں کے ذریعے ٹی وی چینلز اور اخبارات کو مکمل قابو میں کر لیا۔ تحریک انصاف کے بیانیے کو نہ ہونے کے برابر جگہ ملتی ہے۔ سو ڈیڑھ سو ڈالر لے کر کسی کے لیے بھی بلاگ لکھنے والوں کے بلاگز کو بنیاد بنا کر عمران خان کی کردار کشی کی کمپینز چلوائی گئیں۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی کوریج کرنے سے روک دیا گیا۔ دوسری طرف طلال چوہدری ہو یا عظمیٰ بخاری، ان کی غیر ضروری پریس کانفرنسز کی زبردستی لائیو کوریج کروائی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا تحریک انصاف کا مضبوط قلعہ سمجھے جانے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ پہلے ٹویٹر، ایکس پر پابندی لگائی گئی پھر فائر وال نصب کر دی گئی۔ لوگ وی پی این کے ذریعے آزادی اظہار کا حق استعمال کرنے لگے تو وی پی این ہی بلاک کرنے شروع کر دئیے۔ بات نہ بنی تو انٹرنیٹ سروس بند اور سست کرنا شروع کر دی۔
پی ٹی آئی کے لیے نہ صرف تمام دروازے بند کر دئیے گئے بلکہ ہر دروازے کے سامنے اسے الٹا لٹکا دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کا کل اثاثہ ووٹرز ہوتے ہیں، وہ ان کے پاس بھی نہ جائیں تو کہاں جائیں؟ بقول احمد ندیم قاسمی مرحوم، زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں دیکھنا حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں