زاویہ

میں آخری نہیں جس کے سر کی قیمت لگی

عمران خان کی حکومت کے جانے سے اب تک کے حالات پر ایک مفصل تحریر میں مراد سعید نے لکھا کہ ڈاکٹر شہباز گل گِل آخری نہیں جس نے یہ سب سہا اوروں کو بھی سہنا ہوگا۔ جسم پہ جبر بھی اور روح پر زخم بھی۔ میں آخری نہیں جس کے سر کی قیمت لگی اوروں کی بھی لگے گی۔
مراد سعید کاکہنا تھا کہ رجیم چینج آپریشن کی رات کچھ معتبر چہروں پر خوف کے گھمبیر سائے تھے۔ کچھ دیر قبل کی میٹنگ میں ہوئے فیصلے پر آنے والی کال کا حکم حاوی ہوچکا تھا۔ وزیر اعظم کو سرینڈر پر آمادہ کیا جارہا تھا۔ آئین، قانون کی پاسداری کے گذشتہ دعوی اتنے ہی حقیقت تھے جتنا کے77سال سے علیجاہ کا غیر سیاسی ہونے کا بیان۔
اگلی شام عوام سڑکوں پر آگئی، عقابی روح پھر بیدار ہوگئی۔ 25 مئی تک چہروں کے رنگ کھلتے بکھرتے ہی رہے۔ عمران خان کا حکم آتا شہر کے شہر سڑکوں پر ہوتے۔ پھر یوں ہوا کے 25 مئی کا مارچ 27 مئی کی صبح ختم ہوگیا، سیاہ سائے پھر منڈلانے لگے۔ آگے سر پر ضمنی انتخابات بھی تھے۔ آقاؤں نے پورا زور لگایا، ان کی کوششوں پر یقین محکم رکھنے والوں کے تجزیے بھی ان کی فتح کا اعلان کر رہے تھے۔ عوامی طاقت اور بہتر حکمتِ عملی سے ہم نے اپنا مینڈیٹ محفوظ کرلیا تو بجھے چہروں پر پھر چراغ روشن ہوگئے۔
مگر اگست میں ڈاکٹر شہباز گل کی گرفتاری کے حالات اور ان پر ہونے والے بہیمانہ تشدد کی خبروں نے پھر یہ شمعیں معدوم کردیں۔

مزید پڑھیں:علی امین گنڈا پور کو اب احتجاج سے دور رکھنے کا مشورہ

پارٹی کے کچھ خیرخواہوں نے ہمیں بھی گِل سے دور رہنے کی تنبیہہ کی تو دوسری جانب اپنے اور غیروں نے مل کر اُس کے ڈبل ایجنٹ ہونے کا بیانیہ بنانا شروع کردیا۔ باوجود ان سب بیانیوں کے ناصرف خان صاحب شہباز گِل کی تیمارداری کے لیے ہسپتال آئے بلکہ ان کے لیے ریلی بھی منعقد کی۔
انہوں‌نے لکھا کہ گِل آخری نہیں جس نے یہ سب سہا اوروں کو بھی سہنا ہوگا۔ جسم پہ جبر بھی اور روح پر زخم بھی! میں آخری نہیں جس کے سر کی قیمت لگی اوروں کی بھی لگے گی۔ سب کا سب داؤ پہ لگے گا۔مگر سب سے کھٹن یہ سفر عمران خان کے لیے ہوگا کیونکہ ہم، ہم سفر سہی مگر اصل میں تو صراط مستقیم کا متلاشی وہ ہے اور صراط مستقیم پہ چلنا سہل کب رہا ہے؟ اب اس کو تو اپنی خواہش کی قیمت معلوم ہے، جس جس کو ساتھ چلنے کی خواہش ہے جگرا بڑا رکھے“۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے یہ کہہ کر میں خود کو اور آپ کو ذمہ داری سے مبرا کررہا ہوں۔ میں ایسا نہیں کررہا۔ میں اپنے جواب میں سوال چھوڑ رہا ہوں اور جان کر چھوڑ رہا ہوں کیونکہ کچھ دن سے اندازہ ہورہا ہے کہ کم لکھے کو زیادہ پڑھنے کا ہنر سیکھنا آپ کے لیے بھی اب ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button