
خیبر پختونخوا اسمبلی نے سہیل آفریدی کو نیا وزیرِ اعلیٰ منتخب کر لیا، جنہوں نے 145 رکنی ایوان میں سے 90 ووٹ حاصل کیے (اکثریت کے لیے 73 درکار تھے ۔
یہ انتخاب ایک تنازعے کے سائے میں ہوا۔ سبگدوش ہونے والے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے پہلے 8 اکتوبر اور پھر 11 اکتوبر کو استعفیٰ دیا تھا۔
لیکن گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے گنڈا پور کے دستخطوں کی تصدیق پر اعتراض اٹھایا اور استعفے کی تصدیق کے لیے واپس بھیج دیا۔
اپوزیشن جماعتیں اجلاس سے واک آؤٹ کر گئیں۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ خان نے کارروائی کو "غیر آئینی” قرار دیا، ان کے مطابق گنڈا پور کے استعفے کی باقاعدہ منظوری سے قبل نئے وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب نہیں ہو سکتا تھا۔
تاہم اسپیکر بابر سلیم سواتی نے آرٹیکل 130 کی شق 8 اور حافظ حمداللہ کیس کی نظیر کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ انتخاب آئینی و قانونی ہے اور گنڈا پور کے استعفے درست طور پر جمع کرائے گئے تھے ۔
دوسری جانب گورنر کنڈی نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کے انتخاب کو "غیر قانونی” قرار دیا، مؤقف اختیار کیا کہ جب تک وہ استعفے کی تصدیق سے مطمئن نہیں ہوتے، وہ نئے وزیرِ اعلیٰ کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کر سکتے۔
اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کے انتخاب کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کا انتخاب؛ قانونی و آئینی پہلو
اس معاملے میں واقعات کا تسلسل اور پیش کیے گئے قانونی دلائل کئی آئینی و عدالتی سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ ذیل میں وہ اہم نکات درج ہیں جن پر ماہرین قانون اور مبصرین غور کر رہے ہیں:
استعفیٰ کی حیثیت: منظوری لازم یا نہیں؟
- آئین کے آرٹیکل 130(8) کے مطابق وزیرِ اعلیٰ اپنا استعفیٰ گورنر کو تحریری طور پر دے سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ استعفیٰ کب مؤثر ہوتا ہے — محض جمع کرانے پر، یا گورنر کی باقاعدہ منظوری کے بعد؟
- گورنر ہاؤس نے گنڈا پور کے استعفے واپس کرتے ہوئے دستخطوں میں تبدیلی کا حوالہ دیا اور تصدیق طلب کی۔
- اسپیکر کا مؤقف ہے کہ آئینی تقاضے پورے ہو چکے، لہٰذا گورنر کی منظوری محض ایک رسمی عمل ہے۔
- مخالفین کے مطابق، جب تک استعفیٰ باضابطہ منظور یا تصدیق نہیں ہوتا، وزیرِ اعلیٰ عہدے پر برقرار رہتا ہے، لہٰذا نئے انتخاب کو غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔
وقت اور تسلسل: دو وزیرِ اعلیٰ کا تنازع؟
- اگر گنڈا پور کا استعفیٰ غیر مؤثر یا نامنظور سمجھا جائے تو وہ تاحال قانونی وزیرِ اعلیٰ ہیں، اور آفریدی کا انتخاب قبل از وقت قرار پائے گا۔
- اس سے دو مختلف حکومتوں کے دعوے جنم لے سکتے ہیں، جس سے آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
گورنر کا کردار اور اختیارات
- گورنر کا کردار عمومی طور پر علامتی ہوتا ہے، لیکن اس موقع پر وہ مرکزی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔
- سوال یہ ہے کہ کیا گورنر استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کر سکتے ہیں یا اس کی صداقت پر شک کر کے عمل روک سکتے ہیں؟ اس حوالے سے وکیل اور صحافی منیب فاروق کہتے ہیں کہ ” خیبرپختونخوا وزیراعلی کا انتخاب آئینی طور پر بلکل درست ہے۔ گورنر صاحب کا اعتراض بلا جواز تھا۔ آئین میں ایسا کوئی اختیار گورنر کو حاصل نہیں کہ وہ آئینی طریقے سے دیا گیا تصدیق شدہ استعفی اعتراض لگا کر واپس کر دے”۔
- اگر عدالت نے گورنر کے اعتراضات کو بے بنیاد قرار دیا تو ان کے اقدامات کالعدم ہو سکتے ہیں۔
عدالتی نظرِ ثانی اور ممکنہ مداخلت
- اپوزیشن نے عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ عدالتِ عالیہ یا سپریم کورٹ سے ممکنہ سوالات یہ ہوں گے:
- گنڈا پور کے استعفے کی قانونی حیثیت،
- آفریدی کے انتخاب کی آئینی حیثیت،
- اسپیکر کا فیصلہ قانونی طور پر درست ہے یا نہیں،
- نئے وزیرِ اعلیٰ کے نوٹیفکیشن کا اختیار کس کے پاس ہے اور تاخیر یا انکار قانونی ہے یا نہیں۔
- عدالت عبوری حکم جاری کر سکتی ہے جس سے آفریدی کو وزیرِ اعلیٰ کے طور پر مکمل اختیارات استعمال کرنے سے عارضی طور پر روکا جا سکتا ہے۔
نظائر: حافظ حمداللہ کیس وغیرہ
- اسپیکر نے حافظ حمداللہ کیس کو نظیر کے طور پر پیش کیا، جس میں سپریم کورٹ نے استعفیٰ کی قبولیت کے قانونی پہلو پر فیصلہ دیا تھا۔
- عدالت موجودہ کیس میں اسی نظیر کے حقائق و اطلاق کا باریک بینی سے جائزہ لے گی۔
عملی حکمرانی اور جواز کا مسئلہ
- اگر عدالت آفریدی کے انتخاب کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو ان کی حکومت کو جواز (legitimacy) کے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔
- اس دوران کیے گئے حکومتی فیصلے — مثلاً تقرریاں، بجٹ، یا ٹھیکے — بھی چیلنج کیے جا سکتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کا انتخاب؛ سیاسی اثرات اور اداروں پر اعتماد
- یہ واقعہ صوبائی و وفاقی اداروں کے درمیان تناؤ کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
- اگر معاملہ عدالت میں گیا تو عدلیہ کا کردار اور اس پر عوامی اعتماد بھی زیرِ بحث آئے گا۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کے پہلے خطاب کے اہم نکات:
اپنے انتخاب کے بعد وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نامزدگی طبقاتی سیاست کے بجائے اہلیت و جدوجہد کا اعتراف ہے۔
سہیل آفریدی نے عمران خان کیلئے شعر بھی پڑھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ
نہیں مروں گا، اب کسی جنگ میں یہ سوچ لیا
میں اب کی بار عشق عمران میں مارا جاؤں گا
انہوں نے قبائلی علاقوں کی طویل محرومیوں کا ذکر کیا اور ان کی شمولیت کو پالیسی سازی میں یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا۔
دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشنز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا: "آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مکالمہ ضروری ہے۔
انہوں نے 8 فروری 2024 کے عام انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا اعلان کیا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے خبردار کیا کہ اگر عمران خان کو جیل سے مشاورت کے بغیر منتقل یا بدسلوکی کی گئی تو پی ٹی آئی ملک گیر احتجاج کرے گی۔
نئے منتخب وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ ان کے پاس "کھونے کو کچھ نہیں” — نہ کوٹھیاں، نہ عیش و آرام — اور وہ اپنے عہدے کو تحریک انصاف کے مقصد کے لیے استعمال کریں گے۔
انہوں نے صوبائی ایجنڈے میں سلامتی، افغان پالیسی کا ازسرِنو جائزہ، اور مقامی عمائدین کو فیصلہ سازی میں شامل کرنے پر زور دیا۔