آرٹیکلزاویہ

جاسم چٹھہ کا ایکس اکاؤنٹ‌پاسورڈ جاننے کیلئے فیملی پر تشدد

جاسم چٹھہ ایک ‌ڈاکٹر ہیں‌جو اس وقت بیرون ملک مقیم ہیں‌لیکن کئی پاکستانیوں‌کی طرح جو بیرون ملک مقیم ہیں، جاسم چٹھہ بھی پاکستان میں‌قانونی کی حکمرانی اور دیگر موضوعات پر تنقیدی ٹویٹس کرتے رہتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ ٹویٹر مشن ان کی فیملی پر تشدد کا باعث بن گیا۔
اپنی ایکس اکاؤنٹ پر تفصیلات شیئر کرتے ہوئے جاسم چٹھہ نے لکھا کہ رات کے دو بجے کے قریب پانچ ویگو ڈالے اور دو سی آئی اے پولیس کی گاڑیاں گھر کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی جن سے تقریبا بیس سے زائد افراد نکلے۔ پانچ افراد سول کپڑوں میں تھے اور باقی پولیس یونیفارم میں تھے۔ گھر کے گیٹ کو پھلانگ ایک آدمی اندر داخل ہوا اس نے گیٹ کی کنڈی اندر سے کھولی اور باقی لوگ دندناتے اندر آ گئے۔
صحن میں والدہ اور ہمشیرہ سو رہی تھیں آ کر ان پر پسٹل تان لئے۔ پھر ایک بھائی کے کمرے میں گئے۔ وہ میرا بھائی معذور ہے۔ اس کو کہا چلو اٹھو اس نے کہا میں چل نہیں سکتا۔ اسے چھوڑ کر دوسرے بھائی کے کمرے میں گھس گئے۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ سو رہا تھا اسے اٹھایا اور صحن میں کھڑا کر دیا۔
پھر امی ابو کے کمرے میں گئے ان پر پستول تان لئے۔ والد صاحب کے سرہانے رائفل اور بتیس بور پڑی تھی۔ کہتے ہیں اس کا لائسنس ہے؟ ابا جی نے کہا سارا اسلحہ لائسنس ہے۔ رائفل کی میگزین سے ساری گولیاں نکال لیں۔ سب گھر والوں کے فون لے لئے۔ لیپ ٹاپ اٹھا لئے۔ بھائی کو ہتھکڑی لگا لی اور ساتھ والد صاحب کو ویسے ساتھ چلنے کو کہا۔ تھوڑی دیر بعد والد صاحب کو الگ کر دیا اور بھائی کو پولیس کی گاڑی میں بٹھا لیا۔
بھائی بتاتا ہے کہ منہ پر کالا کپڑا چڑھا دیا اور مارنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی مجھے بھائی کے واٹس ایپ نمبر سے کال ملا کر کہا فورا ٹویٹر کا پاسورڈ دو۔ کہلواتے بھائی سے ہی تھے خود بات نہیں کرتے تھے اور جب میں انکار کرتا تھا مزید مارتے تھے۔ تھوڑی دور جا کر پولیس کی گاڑی سے نکال کر دوسری گاڑی میں شفٹ کیا۔ ایک نے ناک پر مکا مارا جس کی وجہ سے ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔

مزید پڑھیں:‌مشوانی خاندان کے 4 افراد کے اغواء کی افسوسناک کہانی

دوسرے نے کان پر مارا جس کی وجہ سے کان ابھی تک ٹھیک سے سن نہیں پا رہا۔ تھوڑی دور جا کر پھر گاڑی بدلی اور گوجرانوالہ کینٹ لے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک ہی بات کروائیں کہ پاسورڈ دو ورنہ جان سے مار دیں گے۔ کینٹ کے عقوبت خانے میں بھائی کو ننگا کیا اور کرنٹ لگایا۔ پھر ایک آدمی ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف کھڑا ہو گیا اور چمڑے والے چھتر سے مارنا شروع کر دیا۔ میں فون پر سن رہا تھا ایک نے کہا اس کی چمڑی اتار دو ڈاکٹر خود نئی چمڑی لگا لے گا۔ پھر بھائی پر پانی پھینکا اور کمر پر مارنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد موچنے سے ٹانگوں سے بال کھینچنا شروع کر دئیے۔ چخیں اس قدر دردناک تھیں کہ خدا کی پناہ۔
مطالبہ ایک ہی کہ پاسورڈ دو۔ آنکھوں پر مسلسل کالی پٹی تھی۔ پھر بھائی کو ایک چھوٹے سے جنگلہ نما کمرے میں بند کر دیا۔کافی کوشش کے بعد مذاکرات میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر اگمغرب کے وقت سی آئی پولیس کے حوالے کیا اور پولیس والوں نے پھر کال کی کہ آ کر بندہ اپنا لے جاؤ۔ مسئلہ پاسورڈ دینے کا نہیں تھا مسئلہ یہ تھا کہ میرے ساتھ کئی دوست احباب جڑے ہیں میں ان کو ایکسپوز نہیں کر سکتا تھا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button